چین اور تائیوان کے صدور کی چھ دہائیوں میں پہلی ملاقات
7 نومبر 2015ملاقات سے قبل طرفین نے واضح کیا تھا کہ دونوں صدور کی اس بات چیت میں نہ تو کوئی معاہدہ طے پائے گا اور نہ ہی کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جائے گا، تاہم ان تمام باتوں کے باوجود مبصرین اس ملاقات کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ چین سن 1949ء میں خانہ جنگی کے دوران خود مختاری کا اعلان کرنے والے تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی طرح کے باقاعدہ سفارتی تعلقات موجود نہیں ہیں، تاہم دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات میں گزشتہ سات برسوں کے درمیان صدر ما ینگ جیو کے دور میں کسی حد تک بہتری ہوئی ہے۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان اس ملاقات کی خبر سامنے آنے پر تائیوان میں مظاہرے جاری ہیں۔ اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی نے صدر ما ینگ جیوکے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ان کے اقتدار کے خاتمے کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ تائیوان میں جنوری کی 16 تاریخ کو صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔
ملاقات کے لیے سنگاپور روانگی سے قبل تائی پے میں صدر ما نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا تھا، ’’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری اور باہمی تعاون میں اضافہ ہو۔ یہی اس ملاقات کا ہدف ہو گا۔‘‘
خبر رساں اداروں کے مطابق اس موقع پر ہوائی اڈے کے باہر درجنوں افراد نے مظاہرہ بھی کیا۔ بتایا گیا ہے کہ سنگاپور میں اس ملاقات کے وقت مظاہرہ کرنے کی خاطر سنگاپور جانے کی کوشش کرنے والے تین تائیوانی باشندوں کو سنگاپور کے امیگریشن حکام نے ملک میں داخلے سے روک دیا۔
صدر ما نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ وہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں کوشش کریں گے کہ دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کا آغاز ہو، تاہم انہوں نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ کسی بھی حالت میں چین کے ساتھ الحاق سے متعلق بات چیت نہیں ہو گی۔