1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین لداخ کی پینگانگ جھیل پر نیا پل تعمیر کر رہا ہے

4 جنوری 2022

زیر تعمیر پل پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کو ایک دوسرے سے ملائے گا، جس سے چینی فوج کو دونوں اطراف تک رسائی حاصل ہو گی۔ اسی جھیل سے دونوں ملکوں کے درمیان عسکری تنازعہ شروع ہوا تھا، جو ابھی تک جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/457J8
Indien Kashmir | Indischer Armeeconvoy
تصویر: Dar Yasin/AP/picture alliance

مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے قریب بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو جاری رکھتے ہوئے، چین معروف جھیل پینگانگ پر ایک نیا پل تعمیر کر رہا ہے۔ یہ پل لائن آف کنٹرول کے بالکل قریب ہی واقع ہے اور گزشتہ چند ماہ سے زیر تعمیر ہے۔

عسکری امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پل جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں کے درمیان فوجیوں کو تیزی سے تعینات کرنے کے لیے ایک اضافی محور کے طور پر کام کرے گا۔ بھارت کے بیشتر میڈیا اداروں نے یہ خبر جلی حرفوں میں شائع کی ہے تاہم بھارتی حکومت نے ابھی تک اس خبر پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

دفاعی نکتہ نظر سے اہم قدم 

اطلاعات کے مطابق ایل اے سی پر پل کی تعمیر چین کی جانب ہو رہی ہے تاہم اس مقام سے محض چند میٹر کے فاصلے پر وہ علاقہ ہے جس پر بھارت دعوی کرتا ہے۔ پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے پر سڑک پہلے ہی سے موجود ہے تاہم شمالی کنارہ پہاڑوں سے گھرا ہے اور وہاں تک کسی کو بھی آسانی سے رسائی حاصل نہیں ہے۔

 اس پل کی تعمیر سے چین کی فوج کو آسانی سے جھیل کے دونوں کناروں تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ پینگانگ سو جھیل، 135 کلومیٹر لمبی ہے، جس میں سے دو تہائی سے زیادہ چین کے کنٹرول میں ہے۔ چین جھیل میں خرناک قلعے کے پاس ہی نیا پل بنا رہا ہے۔ یہ علاقہ کبھی بھارت کے پاس ہوا کرتا تھا۔

مئی 2020 میں چین اور بھارت کے درمیان ایل اے سی پر اسی جھیل سے فوجی کشیدگی کے آغاز ہوا تھا۔ حالات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ پندرہ جون کی رات کو وادی گلوان میں دونوں افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے میں چین کے بھی چند فوجی مارے گئے تھے۔

بعد میں فریقین کے درمیان کئی دور کی بات چيت کے بعد جھیل کا تنازعہ ختم ہو گیا تھا۔ تاہم فیصلے کے تحت اب بھارت کو صرف فنگر دو تک ہی پٹرولنگ کی اجازت ہے جبکہ پہلے اسے فنگر چار تک گشت کی اجازت تھی۔  

Indien Kashmir | Indischer Soldat
تصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

خطے میں کشیدگی کے آغاز کے بعد سے دونوں ملکوں نے نہ صرف موجودہ بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا ہے، بلکہ پوری سرحد کے ساتھ کئی نئی سڑکیں، پل، جنگی جہاز اتارنے اور پرواز بھرنے کے لیے ہوائی پٹیاں بھی تعمیر کی ہیں۔

وادی گلوان میں چینی پرچم

اس برس کے آغاز پر چینی حکومت کے حمایت یافتہ کئی سوشل میڈیا سائٹ نے اسی وادی گلوان پر چینی فوجیوں کو اپنا پرچم لہرانے کی ویڈیو بھی جاری کی، جہاں بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔

بھارت کا دعوی ہے ایک سمجھوتے کے تحت چینی فوج گزشتہ برس وادی گلوان سے پیچھے ہٹ گئی تھی اور بھارت نے اپنی پوزیشن دوبارہ بحال کر لی ہے۔ تاہم چینی فوج کی ان تازہ ویڈیوز سے بھارت کے دعوے کی نفی ہوتی ہے۔

چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ٹویٹر پر مذکرہ ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا، "بھارتی سرحد کے قریب گلوان ویلی میں اپنے کردار کے ساتھ۔ اپنی ایک انچ زمین بھی نہ دینے والے پی ایل اے کے فوجی یکم جنوری 2022 کو چینی لوگوں کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے۔"

حکومت سے وابستہ ایک اور میڈیا ادارے نے اس حوالے سے ایک اور ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا، " 2022 کے نئے سال کے دن وادی گلوان پر چین کا قومی پرچم بلند ہوتا ہوا۔ یہ قومی پرچم بہت خاص ہے کیونکہ یہ کبھی بیجنگ کے تیانمین اسکوائر پر اڑتا تھا۔"  

سرحد سے متعلق چین کا نیا قانون نافذ

چین نے اس برس یکم جنوری سے اپنے اس نئے سرحدی قانون کو نافذ کیا ہے، جس میں اپنے سرحدی دفاع کو مضبوط بنانے، سرحدوں کے قریب نئے دیہات بسانے اور انفراسٹرکچر کی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق صورت حال کے پیش نظر سرحدی علاقوں میں جب بھی ضرورت پڑے ہنگامی اقدامات بھی نافذ کیے جا سکتے ہیں۔

اس قانون کے نفاذ سے عین قبل، چین نے اپنے نقشے میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر کے نیا نام بھی رکھا ہے۔ گرچہ یہ سرحدی قانون محض بھارت کے لیے ہی نہیں ہے، تاہم اس کے اہم مضمرات ہیں کیونکہ مئی 2020 میں سرحدی تنازعی بھڑک اٹھنے کے بعد سے ہی لداخ میں عسکری تیاریاں جاری ہیں۔

پینگانگ جھیل کا حسن سرحدی کشیدگی کی زد میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں