چین میں روشن خیالی کے فروغ کی کوشش
9 اپریل 2011جرمنی کے دارالحکومت برلن ، جنوبی شہر میونخ اور مشرقی شہر ڈریسڈن کے تعاون سے لگ بھگ چھ سو فن پارے اس نمائش میں رکھے گئے ہیں۔ The Art of Enlightenment نامی یہ نمائش ایک سال تک جاری رہے گی۔ اس کا مقصد یورپی ثقافت اور حقوقِ انسانی کے تاریخی پس منظر سے متعلق آگہی کا فروغ بتایا جاتا ہے جو اس براعظم میں رائج موجودہ اقدار کی بنیاد ہیں۔ اگرچہ بعض لوگ اسے چین میں ایک جماعتی سیاسی نظام پر مغرب کی پوشیدہ تنقید کے طور پر دیکھ رہے ہیں مگر منتظمین کا موقف مختلف ہے۔
ڈریسڈن میں سٹیٹ آرٹ کلیکشن کے جنرل ڈائریکٹر مارٹن روتھ کا کہنا ہے، ’’ ہمارا مقصد یہ ہے کہ نمائش دیکھنے کے لیے آنے والوں کو روشن خیالی سے متعلق مزید آگہی فراہم کریں، ہم یہ امید نہیں لگائے بیٹھے کہ یہاں آنے والا ہر ایک شخص اسے سمجھے، بس موضوع سے تعلق جوڑنے کے بات ہے ورنہ لوگ آکر یہاں رکھی گئی خوبصورت تصاویر کو محض دیکھ کر بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔‘‘
ان کے بقول یورپ نے روشن خیالی کے ان نظریات کو 17ویں اور 18ویں صدی ہی میں اپنا لیا تھا مگر چین اب تک ان سے نظریں چرا رہا ہے۔ ’’ افسوس کی بات ہے کہ آئل پینٹنگ کی ایک نمائش کی تو اجازت ہے مگر اس میں سے جڑی بحث کی اجازت نہیں۔‘‘
چینی معاشرے میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بالخصوص بعض موضوعات کو انتہائی حساس قرار دے کر انہیں چھیڑنے پر پابندیاں عائد ہیں۔ روشن خیالی کے موضوع سے متعلق چینی فلسفی Xu Youyu کہتے ہیں کہ روشن خیالی کا یہ فلسفہ پرانا نہیں ہوا۔ وہ جرمن فلسفی Immanuel Kant' کے نظریئے کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی ہی تخلیق کردہ عدم بلوغیت سے بالا تر ہونے کی ضرورت ہے۔
چین کا سرکاری نیشنل میوزیم آف چائنا اس نمائش کا شریک میزبان ہے۔ اس سرکاری تعاون کے سبب ایسے امکانات بہت کم ہیں کہ چین میں انسانی حقوق، یورپی روشن خیالی اور آزادی کی اہمیت کے نظریات پر کھلی بحث ہوسکے۔ چین کی طرف سے اس نمائش میں یورپی ترقی سے جڑے تاریک پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہے مثال کے طور پر نو آبادیاتی دور، جس دوران چین سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کا یورپی طاقتوں نے استحصال کیا تھا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادات: عصمت جبیں