چین کی ایغور مسلم آبادی میں اضافے کے خلاف سخت حکومتی اقدامات
30 جون 2020چینی حکومت ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ہاں بچوں کی پیدائش کی شرح پر کنٹرول کے لیے بہت سخت اقدامات کر رہی ہے۔ دوسری طرف ہان نسل کی اکثریتی آبادی کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
متعدد خواتین انفرادی طور پر جبری فیملی پلاننگ کے بارے میں اپنے خیالات اور تجربات کا اظہار کرتی آئی ہیں تاہم خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس نے اس بارے میں چھان بین کی۔ یہ چھان بین حکومتی اعداد و شمار، سرکاری دستاویزات اور ماضی میں چین میں زیر حراست رہنے والے 30 افراد، ان کے اہل خانہ اور حراستی کیمپ کے ایک سابق انسٹرکٹر سے ملنے والی اطلاعات کو بروئے کار لاتے ہوئے مکمل کی گئی۔
'نسل کُشی‘
چین میں ریاست کی طرف سے اقلیتی خواتین کو باقاعدگی سے 'حمل چیک‘ کا پابند بنایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مختلف مانع حمل ذرائع بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر انٹرا یوٹیرائن ڈیوائسز IUDs، نس بندی اور یہاں تک کہ خواتین کو اسقاط حمل پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔ آئی یو ڈی یا کوائل دراصل T کی شکل کا ایک پلاسٹک ہوتا ہے، جو کاپر خارج کرتا ہے۔ اسے خواتین کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے تاکہ یہ خواتین حاملہ نہ ہو سکیں۔ گرچہ چین میں ملکی سطح پرانٹرا یوٹیرائن ڈیوائسز اور نس بندی کی شرح تیزی سے کم ہوئی ہے لیکن گزشتہ چار سالوں سے صوبے سنکیانگ میں اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ ماہرین اسے مقامی مسلم آبادی کی 'نسل کُشی‘ بھی قرار دے رہے ہیں۔
بڑے پیمانے پر نظر بندی
چین میں خاندانی منصوبہ بندی کا پابند بنانے کے لیے شہریوں کو حراستی کیمپوں میں ڈال دینے کے خطرات سے ڈرایا جاتا ہے اور فیملی پلاننگ کے اصولوں کی خلاف ورزی یا ان کے احترام میں ناکامی کی سزا کے طور پر انہیں کیمپوں میں زیر حراست بھی رکھا جاتا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق تین یا اس سے زیادہ بچوں کے والدین کو ان کی فیملی سے دور کر کے سزا کے طور پر اس وقت تک کے لیے کسی نہ کسی حراستی کیمپ میں پہنچا دیا جاتا ہے، جب تک کہ وہ جرمانے کی بھاری رقم ادا نہ کریں۔ یہاں تک کہ پولیس ان کے گھروں پر چھاپے بھی مارتی ہے کہ وہاں کوئی بچے چھپے ہوئے نہ ہوں۔
قزاقستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون گلنار عمیرزاخ جن کی پیدائش چین کی ہے، انہوں نے اپنے تجربات کے بارے میں بتایا کہ جیسے ہی ان کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی، حکومت نے انہیں IUD استعمال کرنے کا حکم دیا۔ دو سال بعد جنوری 2018ء میں فوجی اہلکار ان کے گھر آئے اور دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر انہیں 2685 ڈالر کے برابر جرمانہ ادا کرنے کا حکم سنا کر تین دن کی ڈیڈ لائن دے گئے۔ گلنار ایک غریب سبزی فروش کی بیوی ہیں۔ ان سے ان فوجیوں نے کہہ دیا کہ اگر انہوں نے جرمانہ وقت پر ادا نہ کیا تو، انہیں بھی ان کے شوہر اور دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں شہریوں کی طرح کسی حراستی کیمپ میں بند کر دیا جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جہاں چین میں ملک گیر سطح پر نس بندی کی شرح گری ہے، وہاں 2016ء تا 2018ء سنکیانگ میں اس کی شرح میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور ان دو سالوں کے دوران اسٹرلائزیشن کے 60 ہزار پروسیجرز عمل میں لائے گئے۔ ایغور مسلمانوں کی اکثریت والے شہر ہوتان میں بچے پیدا کرنے کی عمر والی تمام شادی شدہ خواتین کا 34 فیصد حصہ مانع حمل ضوابط پر عمل کرتے ہوئے جبری فیملی پلاننگ کر رہا ہے۔
ک م/ م م / نیوز ایجنسیاں