چین کے جوابی اقدامات پر امریکا کی تنقید
3 اپریل 2018اب امریکا کی طرف سے چینی جوابی اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی نائب ترجمان لنڈسے والٹرز کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’امریکا کی منصفانہ برآمدی مصنوعات کو نشانہ بنانے کی بجائے چین کو اپنی غیر منصفانہ تجارتی سرگرمیاں بند کرنا چاہییں، جن سے امریکی سلامتی اور عالمی منڈیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘
ادلے کا بدلہ: چین نے بھی جوابی ٹیکس لگا دیے
امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے لگائے گئے متنازعہ درآمدی ٹیکسوں کے جواب میں چین نے بھی 128 امریکی مصنوعات کی درآمد پر اضافی ٹیکس عائد کر دیے ہیں اور ان کا نفاذ پیر دو اپریل سے ہو چکا ہے۔ چین کی طرف سے لگائے گئے ان ٹیکسوں کی مالیت تین بلین امریکی ڈالر بنتی ہے۔
قبل ازیں امریکا نے چینی اسٹیل اور المونیم پر اضافی محصولات عائد کیے تھے اور ان کی مالیت تقریباﹰ پچاس بلین ڈالر بنتی ہے۔ اس کے جواب میں چین کا کہنا تھا، ’’امریکا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی واضح خلاف ورزی کی ہے اور اس طرح چینی مفادات کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔‘‘
دوسری جانب امریکی کسانوں نے بھی واشنگٹن حکومت کے فیصلوں پر تنقید کی ہے۔ فری ٹریڈ گروپ نامی ایک تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’یہ امریکی کسانوں پر لگایا جانے والا ٹیکس ہے، جو تحفظ تجارت کی پالیسیوں کے نام پر نافذ کیا جا رہا ہے۔‘‘
چین اور امریکا کے مابین اس تجارتی جنگ کے آغاز نے سرمایہ کاروں کو بھی خوفزدہ کر دیا ہے۔ انہیں خوف ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اور دو بڑی طاقتوں کے مابین یہ تجارتی لڑائی تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ امریکی اور چینی اقدامات کے بعد بین الاقوامی اقتصادی منڈیوں میں خسارے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔