چین کے ساتھ کشیدگی پربھارت میں حکمراں اور اپوزیشن میں تکرار
26 جون 2020چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکمراں جماعت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسیوں پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔
رواں ماہ کے وسط میں مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں بھارت کے بیس فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد حکومت نے کافی دباؤ کے بعد کل جماعتی میٹنگ طلب کی۔ اس میٹنگ میں کئی جماعتوں نے حکومت پر سرحد سے متعلق کئی معاملات کو خفیہ رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔
میٹنگ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی بات تو تسلیم کی تاہم جب یہ کہا کہ ''بھارت کی سر زمین پر نہ تو کوئی داخل ہوا اور نہ ہی بھارت کی ایک انچ زمین کسی کے قبضے میں ہے۔'' تو کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی نے طنزیہ انداز میں کہا، ''مودی نے چین کے سامنے سرینڈر کر دیا ہے۔''
چین کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے کانگریسی رہنما راہول گاندھی حکومت پر مسلسل نکتہ چینی کرتے رہے ہیں تاہم ان کے اس بیان کے بعد کہ مودی چین کے سامنے سر نگوں ہوگئے ہیں، بی جے پی نے بھی کانگریس پر چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے شدید تنقید شروع کردی ہے۔
پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے کانگریس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کل جماعتی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے کہ کہا کہ وہ ملک کے مفاد میں مودی کے ساتھ ہیں۔ لیکن، ''صرف ایک خاندان نے سوال اٹھانے شروع کر دیے۔ آج وہ چین کے خلاف اس طرح کھڑے ہیں جیسے ان جیسا کوئی دوسرا سپاہی نہیں ہے۔ ایک خاندان کی ہی غلطیوں سے تو ہمیں 43 ہزار کلو میٹر مربع زمین گنوانی پڑی ہے۔“
بی جے پی کے صدر کا اشارہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی طرف تھا، جب سن 1962 میں بھارت چین جنگ میں بھارت کو شکست فاش ہوئی تھی۔ جے پی نڈّا نے کانگریس پارٹی پر چین سے عطیات لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے 2005 اور 2006 میں راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو کروڑوں روپے کا عطیہ دیا تھا۔ اس ادارے کی صدر سونیا گاندھی ہیں۔
بی جے پی کے صدر کا کہنا تھا کہ چونکہ کانگریس پارٹی نے چین سے چندہ لیا اور پھر چین نے اسی ادارے کے ماتحت کافی ریسرچ کی اس لیے ملک کی سکیورٹی کے متعلق سوال پوچھنے کا کانگریس کو کوئی حق نہیں ہے۔ '' ملک یہ جاننا چاہتا ہے کہ آخر ان کو پیسے کس لیے دیے گئے تھے اور
چین نے کس بارے میں اسٹڈی کی تھی۔''
کانگریس نے اس کے جواب میں کہا کہ حکمراں جماعت بی جے پی چینی فوجیوں کے بھارت کی سر زمین داخل ہونے اور فوجیوں کی ہلاکت جیسے اصل موضوعات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی باتیں کر رہی ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما آنند شرما نے بی جے پی اور کمیونسٹ پارٹی آف چین کے درمیان کئی طرح کے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کانگریس پارٹی اور راہول گاندھی کے خلاف غلط افواہیں پھیلا رہی ہے۔
کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، ''برائے کرم 2005 میں رہنا بند کریں اور 2020 سے متعلق سوالات کے جواب دیں۔ چین گلوان وادی میں پھر داخل ہو گیا ہے، ڈیپسنگ علاقے میں چینی فوج بڑی تعداد میں موجود ہے، آخر حکومت مشرقی لداخ میں چین کی موجودگی پر خاموش کیوں ہے؟
انہوں نے کہا کہ کانگریس، حکومت کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لیے لایعنی باتوں کے بجائے ملک کے مفاد میں ان سوالوں کا جواب چاہتی ہے۔ سرجے والا نے کہا کہ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلی تھے تو چین کا پانچ بار دورہ کیا تھا، وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی پانچ بار وہ چین کا دورہ کر چکے ہیں اور چینی صدر کو تین بار بھارت مدعو کرچکے ہیں۔
مودی کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ چھ برسوں میں مودی نے چینی صدر شی جن پنگ سے 18 بار ملاقات کی ہے۔ ان کے بقول بھارت کی سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس نے 2009 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی سے صلاح و مشورہ بھی کیا تھا۔ ''کیا یہ درست نہیں ہے کہ 2011 میں اس وقت کے بی جے پی کے صدر نتن گڈ کری کی قیادت میں بی جے پی کے ایک وفد نے چین کا دورہ کیا تھا اور وہاں طویل مشاورت کی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے سخت گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی پاکستان کے خلاف بیان بازی کر کے اپنی سیاست چمکاتی رہی ہے لیکن اب چین کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کے حوالے سے وہ سخت امتحان سے گزر رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے سخت سوالات اسے قطعی برداشت نہیں ہورہے ہیں۔