چین کے ڈیجیٹل سلک روڈ کا مستقبل
26 اپریل 2019سن 2017 میں پہلے بیلٹ اینڈ روں فورم میں چینی صدر شی جن پنگ نے کہا تھا کہ اقوام عالم کے ڈیٹا کو بیلٹ اینڈ روڈ نامی منصوبے میں ضم کر کے اسے اکیسویں صدی کا ڈیجیٹل سلک روڈ کے طور پر عالمی منظر پر لایا جائے گا۔ صرف دو برسوں کے بعد ہی یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے قریب ہے۔ جمعرات سے چین میں شروع بیلٹ ایڈ روڈ فورم میں ڈیجیٹل سلک روڈ میں چینی ٹیلی کام نے عالمی کاروباری لیڈروں کی جانب سے سرمایہ کاری کے امکانات کو واضح کیا ہے۔
حین اس ڈیجیٹل سلک روڈ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ عالمی مالی منڈیوں کو بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل ممالک کے مختلف شہروں کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ اس ڈیجیٹل انفراسٹرکچر سے سیٹیلائٹ کوریج میں سہولت میسر آئے گی۔ یہ بھی اہم ہے کہ مغربی اقوام کی بڑی بڑی ٹیلی کام کمپنیاں بیلٹ اینڈ روڈ میں شامل چھوٹے ممالک میں کوئی مسابقت میں دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔
اسٹریٹیجک ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں چین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر تعمیر کر کے زمین کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنے اثر میں لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس عمل کی تکمیل پر چین سائبر اسپیس میں اپنی حاکمیت قائم کر کے اپنے اصول و ضوابط متعارف کر سکے گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین بڑی تیز رفتاری کے ساتھ انتہائی برق رفتار ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فائیو جی ٹیکنالوجی کے نیٹ ورک پر مبنی نظام کو فعال کرنے کی کوشش میں ہے۔ اس نظام کی تکمیل پر ڈیجیٹل سلک روڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک سپر ہائی وے میں تبدیل ہو جائے گی۔
رواں برس فروری تک چینی کے بڑے ٹیلی کام ادارے ہواوے کے پاس فائیو جی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی پندرہ سو انتیس ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز کے جملہ حقوق رکھتی ہے۔ یہ کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اس میں اگر ایک اور چینی ٹیلی کام کمپنی زیڈ ٹی آر کو بھی شامل کر لیا جائے تو چینی کمپنیاں چھتیس فیصد جدید ترین فائیو جی ٹیکنالوجی ڈیوائسز کے حقوق کی مالک ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ افریقی ملک زیمبیا میں چینی کمپنی ہواوے ٹیلی مواصلاتی انفراسٹرکچر بچھانے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو چینی ای کامرس کے بڑے ادارے علی بابا اور ٹین سینٹ مالی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ چینی ٹیلی مواصلاتی کمپنیاں فائیو جی ٹیکنالوجی کے آلات مغربی اقوام کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت پر فراہم کر رہی ہیں۔
اس کے بھی اندازے لگائے گئے ہیں کہ چین اور امریکا کا تجارتی تنازعہ اگر یوں ہی چلتا رہا تو چین بیلٹ اینڈ روڈ ممالک میں ٹیلی مواصلاتی رابطوں کے لیے ایک علیحدہ نظام استوار کر سکتا ہے۔