چینی ایپس پر پابندی کتنی مؤثر؟
30 جون 2020چین کے خلاف عوامی جذبات کے پس منظر میں مودی حکومت کے اس اقدام کا بہر حال عوام اور بالخصوص ہندو قوم پرست افراد اور تنظیموں کی طرف سے خیرمقدم کیا جارہا ہے۔
ایسے وقت میں جب کہ بھارت اور چین کی فوجیں لداخ میں سرحد پر آمنے سامنے ہیں اور دو ہفتے قبل ہوئی جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں، بھارت نے مقبول ترین ایپ ٹک ٹاک، شیئراِٹ، وی چیٹ، یو سی براؤزر سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس فیصلے کو ہنگامی اقدام اور قومی سلامتی کے لیے ضروری قدم قرار دیا۔
انفارمیشن ٹکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن کے وزیر روی شنکر پرساد نے ایک ٹوئیٹ کرکے کہا،”یہ پابندی سکیورٹی، خود مختاری اور بھارت کی سالمیت کے لیے ضروری ہے۔ ہم بھارت کے شہریوں کے ڈیٹا اور پرائیوسی میں کسی طرح کی نقب زنی نہیں چاہتے ہیں۔"
ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت نے بھی اپنے بیان میں کہا ”ہمیں کئی ذرائع سے ان ایپس کے متعلق شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اینڈرائیڈ اور آئی او ایس پر یہ ایپس لوگوں کے پرائیوٹ ڈیٹا میں نقب لگارہے تھے۔ ان ایپس پر پابندی سے بھارت کے موبائل اور انٹرنیٹ صارفین محفوظ ہوں گے۔ یہ بھارت کی سیکورٹی، سالمیت اور خودمختاری کے لیے ضروری ہے۔"
بھارت میں ٹک ٹاک کے 100ملین سے زیادہ صارفین ہیں۔ ٹک ٹاک کے انڈیا ہیڈ نکھل گاندھی کی طرف سے آج جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے ”بھارتی قانون کے تحت ڈیٹا کو راز میں رکھنا اور سکیورٹی ضرورتوں پرعمل کرنا جاری رکھا جائے گا۔ ہم نے کسی بھی انڈین یوزر کی کوئی بھی معلومات غیر ملکی حکومت یا چین کی حکومت کو نہیں دی ہے۔"
چینی ایپس خاص طور سے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے سے بھارت میں بالخصوص نوجوان طبقہ مایوس ہے۔ کیوں کہ بہت سے نوجوانوں نے اس ایپ کا استعمال کرکے بہت کم وقت میں مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جن چینی ایپس پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں وئیبو بھی شامل ہے۔ جس پر وزیر اعظم مودی کا ویریفائیڈ اکاؤنٹ ہے اور اس پر ان کے دو لاکھ 40 ہزار سے زائد فالوورز ہیں۔
ڈیجیٹل حقوق اور آزادی کے لیے سرگرم بھارتی ادارہ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں اجتماعی فیصلہ کرنے کی بجائے ذاتی طورپر فیصلہ لینے کا اختیار دیا جانا چاہئے تھا۔ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ڈیٹا سکیورٹی اور شہریوں کی پرائیویسی کی فکرمندی جائز ہے۔ لیکن اسے ریگولیٹری کے عمل کے ذریعہ درست کیا جاسکتا ہے۔ اس سے انفرادی آزادی، اختراعات اور سکیورٹی مفادات کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ فاؤنڈیشن نے مزید کہا کہ”چینی ایپس پر پابندی عائد کرنے کا حکم سیکشن 96 اے کے تحت جاری کیا گیا ہے اور اس کے تحت جاری کیا جانے والا حکم کوئی قانونی حکم نہیں ہے۔ ہمارا پہلا سوال شفافیت اور ڈسکلوزر ہے۔"
اپوزیشن کانگریس پارٹی نے گوکہ چینی ایپس پر پابندی کا خیرمقدم کیا ہے تاہم اس کے کئی رہنماوں نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس کے سابق رکن پارلیمان سنجے نروپم نے کہا،”ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہونے سے ہمارے ملک کے لاکھوں نوجوان بے روزگار ہوجائیں گے۔ اور ہم اس دور میں سب سے ،خالص اوردیسی تفریح سے محروم ہوجائیں گے۔ ٹک ٹاک اسٹاروں کا اچانک اختتام ان کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔"
کانگریس کی ایک دیگر رہنما اور دہلی اسمبلی کی سابق رکن الکا لامبا نے ٹوئیٹ کیا کہ ”ابھی حال ہی کی بات ہے، جب ملک کے وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر بتایا تھا کہ ٹک ٹاک سے بھارت کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کیوں کہ شاید اس وقت ٹک ٹاک سے پی ایم کیئرز فنڈ میں 30 کروڑ روپے آچکے تھے۔"
عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمان سنجے سنگھ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ”ایپ بند کرنے کی ڈرامے بازی اس لیے کی گئی ہے کہ چندہ واپس کرنے کا مطالبہ پس منظر میں چلا جائے۔ پی ٹی ایم سمیت متعدد کمپنیوں سے پی ایم کیئرز فنڈ میں سینکڑوں کروڑ روپے چندہ کے طور پر لیے گئے ہیں۔ اس میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہے جن کا براہ راست چینی فوج سے تعلق ہے۔ مودی جی ان کمپنیوں سے لیا گیا چندہ واپس کردو۔"
خیال رہے کہ وزیر اعظم مودی نے پی ایم کیئرز فنڈ کورونا بحران سے مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا ہے۔ لیکن یہ تنازعے کا شکار ہوگیا ہے۔ عدالت میں اس پر کئی مقدمات زیر التوا ہیں۔ سول سوسائٹی کی متعدد تنظیمیں اس فنڈ میں حاصل ہونے والی رقم کی تفصیل جاننا چاہتی ہیں لیکن مودی حکومت نے اس کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
متعدد ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی ایپس پر پابندی عائد کرنے سے مسابقت میں کمی آئے گی تاہم بعض بھارتی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی ایپس کے لیے ایک موقع ہے۔ تاہم یہ ان کمپنیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع سے کیسے اورکتنا فائدہ اٹھائیں گی۔