چینی ثقافتی انقلاب: عشروں بعد افسوس اور معذرت
12 اگست 2013آج چار عشروں سے بھی زائد عرصے بعد ژانگ کو شدید قسم کے احساس جرم کا سامنا ہے اور اس نے عوامی سطح پر اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ ژانگ نے وہ خاموشی توڑ دی ہے جس نے عوامی جمہوریہ چین کی تاریخ کے جبر اور ظلم سے عبارت ایک پورے عشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
بہت کم نظر آنے والے ایسے اعترافات کا اس لیے خیر مقدم کیا جاتا ہے کہ یہ سب مل کر چینی عوام کو ایسے مواقع فراہم کر سکتے ہیں جن کے ذریعے وہ خود اپنے ہی محسوسات کے اندر تک جھانک سکیں اور ماضی میں لگنے والے ان زخموں کا علاج کر سکیں جو ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔
لیکن آج کے چین میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ایسے اعترافات کا راستہ اس لیے روکا جاتا ہے کہ بہت سے ناقدین کے مطابق چینی کمیونسٹ پارٹی یہ نہیں چاہتی کہ اُسے ماضی کے واقعات کے حوالے سے خود پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کا مقابلہ کرنا پڑے۔
اس بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے چینی دارالحکومت سے اپنے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ژانگ ہونگ بِنگ نے ابھی حال ہی میں بیجنگ نیوز نامی جریدے کو بتایا، ’’تب ثقافتی انقلاب کی سوچ ہر کسی کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی تھی۔ اگر کوئی چاہتا بھی تو اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ تب اگر مجھ میں رحم دلی یا کوئی خوبصورت سوچ تھی بھی، تو اسے ایک ناقابل تنسیخ عمل کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔‘‘ ژانگ نے اپنے اس انٹرویو میں کہا، ’’میں امید کرتا ہوں کہ اپنے ہی ماضی سے متعلق میں نے جس طرح سچ کی عکاسی کی ہے، اس سے دوسرے لوگ یہ سمجھ سکیں گے کہ اس دور کے حالات کیسے تھے۔‘‘
چین میں ثقافتی انقلاب کا دور 1966ء سے لے کر 1976ء تک کے اس عرصے کو کہتے ہیں جس کا آغاز اس وقت کے رہنما ماؤ زے تنگ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کیا تھا۔ ثقافتی انقلاب کے آغاز سے قبل ماؤ زے تنگ کی ’آگے کی طرف عظیم چھلانگ‘ کی پالیسی کے تباہ کن اثرات کے باعث کئی مرتبہ قحط دیکھنے میں آئے تھے اور لاتعداد شہریوں کو ایسے المیوں سے گزرنا پڑا تھا کہ پورے کا پورا چینی معاشرہ بدنظمی اور انتشار کا شکار ہو گیا تھا۔
اس دور میں ’ریڈ گارڈ‘ میں شامل نوجوانوں نے اپنے بڑوں، پارٹی عہدیداروں، دانشوروں، ہمسایوں اور رشتہ داروں تک کا اس طرح استحصال کیا تھا کہ انہیں کھینچ کھینچ کر ان اجلاسوں میں لے جایا جاتا تھا جو ’جدوجہد کے لیے نشستیں‘ کہلاتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے گھروں پر حملے بھی کیے جاتے تھے اور بہت سے متاثرین تو خودکشی پر بھی مجبور ہو گئے تھے۔
ثقافتی انقلاب کے دور میں جن افراد کو نشانہ بنایا گیا، ان میں سے بہت سے جیلوں میں ڈال دیے گئے یا ہلاک کر دیے گئے۔ اس بارے میں چین میں ابھی تک کوئی سرکاری اعداد و شمار میسر نہیں ہیں۔ ایک مغربی مؤرخ کا اندازہ ہے کہ اس دوران صرف 1967ء میں قریب پانچ لاکھ انسان مارے گئے۔
ژانگ ہونگ بِنگ نے 1970ء میں چینی حکام کو بتایا تھا کہ اس کی والدہ نے ماؤ پر تنقید کی تھی۔ اس پر فوجی اہلکاروں نے ژانگ کے گھر پر چھاپہ مارا اور اس کی والدہ کو مار پیٹ کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ دو ماہ بعد اس کی والدہ کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد ہو گیا تھا۔
ثقافتی انقلاب کے خاتمے کے چند سال بعد جب چینی سیاست کا رخ بدلا تو وسطی چین کے صوبے آن ہوئی میں، جہاں ژانگ کا آبائی گھر تھا، ایک عدالت نے ژانگ کی والدہ کو سنائی گئی سزا بعد از موت منسوخ کرتے ہوئے اسے معصوم قرار دے دیا تھا۔ تب سے ژانگ نے اپنے ماضی پر نئے سرے سے غور کرنا شروع کیا اور آج بھی اس کا کہنا ہے، ’’میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا۔‘‘
چین میں ثقافتی انقلاب کہلانے والی تحریک 1976ء میں ماؤ زے تنگ کی موت کے بعد ختم کر دی گئی تھی۔ تب حکام نے اس کی ذمہ داری ’چار کا ٹولہ‘ کہلانے والے ان متنازعہ رہنماؤں پر ڈالی تھی جن کی سربراہی ماؤ زے تنگ کی اہلیہ جیانگ شِنگ نے کی تھی۔ ان چاروں شخصیات کو 1980ء میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔