چینی راکٹ زمین سے دور ترین فاصلے تک
15 مئی 2013امریکا کی ہاورڈ یونیورسٹی سے وابستہ طبیعیاتی فلکیات یا ایسٹرو فزکس کے ماہر جوناتھن میک ڈویل (Jonathan McDowell) کے مطابق چین کی طرف سے یہ راکٹ ملک کے مغربی علاقے میں قائم شی چانگ سیٹلائٹ لانچ سنٹر سے چھوڑا گیا۔ چین کے مطابق اس راکٹ پر زمین کے میگنیٹوسفیئر یا فضا میں زمین کے مقناطیسی کُرے کے بارے میں معلومات جمع کرنے والے سائنسی آلات موجود تھے۔
میک ڈویل کے مطابق اس راکٹ کو مستقبل میں ممکنہ طور پر ایسے آلات کو خلا میں بھیجنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو مدار میں موجود مصنوعی سیاروں کو تباہ کر سکیں، تاہم اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے اندازہ ہو کہ حالیہ راکٹ لانچ میں اس طرح کی کوئی صلاحیت جانچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چین کی طرف سے 2007ء میں زمینی مدار میں موجود اپنے ہی ایک سیٹلائٹ کو تباہ کرنے کے تجربے میں کامیابی کے بعد امریکا کو چین کی طرف سے سیٹلائٹ شکن صلاحیتوں میں اضافے پر کافی تشویش لاحق ہے۔ سیٹلائٹ کی تباہی سے کافی زیادہ خلائی کاٹھ کباڑ زمینی مدار میں پھیل گیا تھا۔
امریکا کی طرف سے 1960ء کی دہائی میں زمین کے مقناطیسی کرے کی معلومات کے لیے بلو اسکاؤٹ جونیئر (Blue Scout Junior) راکٹ کے ذریعے آلات خلا میں بھیجے گئے تھے۔ میک ڈویل کے مطابق پیر کے روز چین کی طرف سے عمل میں لایا گیا راکٹ لانچ بھی اسی طرز کی کامیابی ہے۔
چینی راکٹ کی کامیاب پرواز امریکی نائب سیکرٹری دفاع کی طرف سکیورٹی سیٹلائٹس کی حفاظت کے پروگرام کے اعلان کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد سامنے آئی ہے۔ ایشٹن کارٹر نے کہا تھا کہ امریکا کافی عرصے سے ضروری اس پروگرام کے تحت اپنے قومی تحفظ سے متعلق مصنوعی سیاروں کو مستقبل کے لاحق خطرات سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی طرف سے چین کی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کے بارے میں حال ہی میں 83 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں چین کی بڑھتی ہوئی خلائی صلاحیت کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیجنگ ایسے مختلف پروگراموں پر عمل کر رہا ہے، جن کا مقصد حریف ممالک کو اس بات سے روکنا ہے کہ وہ کسی بحران کی صورت میں خلا کی طرف سے نقصانات سے بچنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔
aba/aa (AFP)