چینی پابندی کی خبروں سے ایپل کے حصص میں زبردست گراوٹ
8 ستمبر 2023ایک ایسے وقت جب چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اطلاعات ہیں کہ بیجنگ نے اپنے سرکاری دفاتر اور حکومت کے اہم اداروں میں آئی فونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد ٹیکنالوجی کی معروف کمپنی ایپل کے حصص میں مسلسل گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
والدین نے آئی فون کے لیے آٹھ ماہ کے بیٹے کو بیچ دیا
بدھ کے روز جب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اس بارے میں پہلی بار رپورٹ کیا تو اس کی رپورٹ کے فوری بعد کمپنی کے شیئر میں 3.6 فیصد گراوٹ درج کی گئی۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ چین نے مرکزی حکومت کے اداروں میں ایپل کے اسمارٹ فونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ایپل کے چین پر انحصار میں کمی کے لیے بھارت مددگار
عوامی سطح پر تجارت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے حصص میں جمعرات کی صبح پھر سے گراوٹ آئی اور ٹریڈنگ میں 2.8 فیصد گر کر 177.79 ڈالر پر آگئی تھی۔
تین سال بعد دنیا کا ہر چوتھا آئی فون بھارت میں بنا ہوا ہو گا
گزشتہ دو دنوں کے دوران کمپنی کی اسٹاک مارکیٹ کی قدر میں چھ فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، یا یوں کہیں کہ دو دنوں میں اس کی قدر میں دو سو بلین ڈالر کی کمی آئی ہے۔
آئی فون الیون: قیمت میں کمی، فیچرز میں اضافہ
ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی ایپل کے لیے چین دنیا کی تیسری سب سے بڑی مارکیٹ ہے اور گزشتہ برس اس کی کل آمدن کا 18 فیصد چین سے آیا تھا۔ چین میں ہی ایپل کی سب سے زیادہ مصنوعات تیار بھی کی جاتی ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیجنگ نے مرکزی حکومتی ایجنسی کے اہلکاروں کو حکم دیا ہے کہ وہ آئی فونز کو دفتر میں نہ لائیں اور نہ ہی انہیں کام کے لیے استعمال کریں۔
ایپل بھارت میں پہلا ریٹیل اسٹور کھولنے کے لیے بے تاب
اس رپورٹ کے اگلے دن بلومبرگ نیوز نے یہ اطلاع دی کہ یہ پابندی سرکاری کمپنیوں اور حکومت کی حمایت یافتہ ایجنسیوں کے کارکنوں پر بھی عائد کی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاعات آئی فون 15 کے لانچ سے عین قبل آئی ہیں۔ آئندہ 12 ستمبر کو نئے آئی فون کے لانچ کی توقع ہے۔
چین اور امریکہ کے درمیان ٹیکنالوجی کی جنگ
ان رپورٹوں کے رد عمل میں چینی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ واضح رہے کہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان اس طرح کی اطلاعات آئی ہیں۔
چین اب مقامی طور پر تیار کردہ ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے استعمال پر زور دے رہا ہے، کیونکہ اب بیجنگ اور واشنگٹن کے لیے ٹیکنالوجی بھی قومی سلامتی کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
اسمارٹ فون کے لیے چپس فراہم کرنے والی دینا کی سب سے بڑی کمپنی قوالکام کے حصص میں بھی جمعرات کو سات فیصد سے زیادہ کی کمی درج کی گئی۔
رواں برس واشنگٹن نے جاپان اور ہالینڈ جیسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بعض چپ ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے رد عمل میں چین نے بھی سیمی کنڈکٹر کی صنعت کے لیے دو اہم مواد کی برآمدات پر پابندی لگا کر اس کا جواب دیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق بیجنگ مبینہ طور پر چپ سازی کی اپنی صنعت کو فروغ دینے کے لیے 40 بلین ڈالر کا نیا سرمایہ کاری فنڈ بھی تیار کر رہا ہے۔
ایپل کے لیے نقصان دہ اثرات
چین ایپل کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے اور اپنی آمدنی کا تقریباً پانچواں حصہ وہیں سے حاصل کرتا ہے۔ ایپل کمپنی اپنے دیگر سپلائرز کے ساتھ مل کر چین میں ہزاروں کارکنوں کو ملازمت بھی فراہم کرتا ہے۔ کمپنی کے سی ای او ٹم کک نے مارچ میں بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور اس دوران چین کے ساتھ اپنے طویل تعلقات پر زور بھی دیا تھا۔
یہ پابندی امریکی کمپنی کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز کی جانب اشارہ کرتی ہے، جس کا محصول میں اضافے اور مینوفیکچرنگ کے لیے چین پر بہت زیادہ انحصار بھی ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)