’ڈان‘ بونے سیارچے تک پہنچ ہی گیا
26 فروری 2015’سیریس‘ نامی یہ بونا سیارچہ مریخ اور مشتری کے درمیان سورج سے 413 ملین کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر رہتے ہوئے گردش کر رہا ہے۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے سورج کی شعاعیں اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ پانی برف بن جاتا ہے۔ ’سیریس‘ ہمارے نظامِ شمسی کا سب سے بڑا شہابیہ ہے، ایک ایسا سیارچہ، جس کے بارے میں محققین بہت ہی کم جانتے ہیں۔ اس کا قطر 950 کلومیٹر ہے اور اپنی گول شکل و صورت کے ساتھ یہ سورج کے گرد گردش کرنے والے دیگر بہت سے چھوٹے بے ڈھب سیارچوں اور شہابیوں کے مقابلے میں ہماری زمین سے کہیں زیادہ ملتا جلتا ہے۔
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ تقریباً 4.5 ارب سال پہلے ’سیریس‘ ایک باقاعدہ سیارہ بننے کے عمل میں تھا لیکن پھر اُس کی افزائش رُک گئی۔ اس طرح اس سیارچے میں ہمارے نظامِ شمسی کی ابتدائی شکل محفوظ ہے۔
اپنی تقریباً دو گرام فی کیوبک سینٹی میٹر کمیت کے ساتھ اس سیارچے کی کثافت اتنی کم ہے کہ یہ ساخت کے اعتبار سے مکمل طور پر چٹانی پتھر سے بنا ہوا نہیں ہو سکتا۔ ایسے میں محققین کا خیال یہ ہے کہ ’سیریس‘ کی سخت سطح کے نیچے جمے ہوئے یا مائع پانی کی ایک سو میٹر تک موٹی ایک تہہ موجود ہو سکتی ہے۔ گویا وہاں سادہ زندگی کے آثار بھی ہو سکتے ہیں۔ وہاں ممکنہ طور پر زیرِ زمین ذخائر میں موجود پانی کی بھاپ سے وجود میں آنے والی فضا بھی موجود ہو سکتی ہے۔
یورپی خلائی دوربین ’ہیرشل‘ نے تین مرتبہ ’سیریس‘ کے بالکل قریب بھاپ کی نشاندہی کی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ’سیریس‘ ہر سیکنڈ میں چھ کلوگرام پانی کو بھاپ کی صورت میں خلا میں پھینک دیتا ہے۔
جرمن شہر گوئٹنگن میں ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے نظامِ شمسی میں سیاروں پر تحقیق کے ماہر اور کیمرہ نظام کے انچارج آندریاز ناتھیوز نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس بھاپ کے بارے میں زیادہ معلومات آئندہ ہفتوں میں سامنے آنے والی تصاویر سے حاصل ہو سکیں گی۔ پھر برلن میں سیاروں پر تحقیق کے ادارے DLR کے سائنسدان ان تصاویر کی مدد سے سہ جہتی ماڈل تیار کریں گے اور یہ پتہ چلانے کی کوشش کریں گے کہ یہ سیارچہ وجود میں کیسے آیا۔
2007ء میں زمین سے اپنا سفر شروع کرنے والے امریکی خلائی جہاز ’ڈان‘ سے تازہ ترین تصاویر چھبیس جنوری کو زمین پر پہنچی تھیں۔ اس کا کیمرہ اب تک ’سیریس‘ کی تقریباً نصف سطح کی تصاویر اتار چکا ہے تاہم یہ تصاویر ابھی زیادہ واضح نہیں ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ محض زیادہ واضح تصاویر ملنے کے بعد ہی اس سیارچے کے حوالے سے پائے جانے والے گوناگوں سوالوں کے جوابات مل سکیں گے۔
چھ مارچ کو ’ڈان‘، جس پر تحقیق کے لیے تین آلات بھی نصب ہیں، ’سیریس‘ کے مدار میں داخل ہو جائے گا اور 2016ء تک اس پُر اَسرار سیارچے کے گرد چکر لگائے گا۔ رفتہ رفتہ ’ڈان‘ اس سیارچے سے اپنا فاصلہ کم کرتا چلا جائے گا، یہاں تک کہ اپنے مشن کے آخر میں یہ اس سیارچے کی سطح سے محض 375 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گا اور زیادہ سے زیادہ واضح تصاویر روانہ کر سکے گا۔