ڈاکٹر قدیر خان سے متعلق لاہور ہائی کورٹ سے حکومت کی اپیل
22 مارچ 2010حکومت پاکستان کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ سے ڈاکٹر عبدل قدیر خان کے چودہ مارچ کو ایک امریکی اخبار میں شایع ہونے والے انٹرویو کے بارے میں پوچھ گچھ کی اجازت چند روز بعد واشنگٹن میں ہونے والے ایک اہم جوہری مذاکرات سے پہلے کی ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستان اور امریکہ کی طرف سےنیوکلئیراسٹٹریٹیجی پر بات چیت ہوگی جس میں غالباً اسلام آباد کی طرف سے واشنگٹن سے ایک سویلین نیوکلئیر ڈیل کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اسی نوعیت کا ایک معاہدہ امریکہ بھارت کے ساتھ طے کر چکا ہے۔ ایک سرکاری وکیل نوید عنایت ملک نے رائٹرز کو ٹیلی فون پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا’ ہم دراصل لاہور ہائی کورٹ سے ڈاکٹر عبدل قدیر خان سے منسوب ان بیانات کے بارے میں تفتیش کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے مبینہ طور پر کسی امریکی اخبار کو دئے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کو خبر دار کریں کہ وہ کسی قسم کا بیان نہ دیں نا ہی کسی سے بات چیت کریں‘۔
لاہور کورٹ میں یہ پیٹیشن واشنگٹن پوسٹ میں دو آرٹیکلس کے شایع ہونے کے بعد پیش کی گئی۔ 10 اور 14 مارچ کو چھپنے والے ان آرٹیکلس کے مطابق پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان نے عراق اور ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لئے مدد فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ دریں اثناء حکومت پاکستان اور ڈاکٹر قدیر خان نے اس قسم کے الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی ذرائعے ابلاغ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدل قدیر خان نے کہا’ نہ تو میں نے ماضی میں نہ ہی اب کسی غیر ملکی اخبار کو کوئی ایسا انٹرویو دیا ہے‘۔ سن 2004 میں پاکستانی نیو کلئیر سائنسداں ڈاکٹر عبدل قدیر خان، جنہیں جنوبی ایشیائی ممالک کے جوہری پروگرام کا خالق بھی کہا جاتا ہے، اُس وقت منظر عام پر آنے والے دنیا کے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے اسکینڈل کی زد میں آئے تھے کیونکو انہوں نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو جوہری خفیہ معلومات فراہم کرنے کے عمل کا اقرار کیا تھا۔
پاکستان کی وفاقی حکومت کے مطابق لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کا مقصد یہ معلرم کرنا ہے کہ ڈاکٹر عبدل قدیر خان سے منسوب کی جانے والی یہ خبریں اور بیانات غیر ملکی میڈیا تک کون پہنچا رہا ہے۔ حکومت کی درخواست پر جسٹس اعجاز چودھری نے ڈاکٹر عبدل قدیر کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو عدالت میں طلب کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدل قدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ میں پہلے ہی سے ایک رٹ فائل کر رکھی ہے جس کی سماعت جاری ہے۔ پاکستانی سائنسدان نے اس رٹ میں حکومت کے سکیورٹی پروٹوکول پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی کے نام پر ان کی آزدای سلب کی جا رہی ہے۔