ڈسکہ میں وکلا کی ہلاکت کے بعد صورتحال کشیدہ
25 مئی 2015مرنے والوں میں ڈسکہ بار ایسوسی ایشن کے صدراور پاکستان تحریک انصاف کے وکلا ونگ کے رہنما رانا خالد عباس اور ان کے ایک ساتھی عرفان چوہان شامل ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس واقعے کے خلاف کل منگل کے روز ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی ہے جب کہ وکلا تنظیموں نے کل ملک بھر میں عدالتوں کا بائیکاٹ کرنے، احتجاجی مظاہرے کرنے اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سانحے کے حوالے سے تین دن تک سوگ منایا جائے گا۔
اس واقعے کے بعد ڈسکہ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ملتان، فیصل آباد، لاہور سرگودھا، کمالیہ، رحیم یارخان، اور مظفرگڑھ سمیت کئی شہروں میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ڈسکہ میں مشتعل وکلا اور عوام نے پولیس کے دفاتر، پولیس کی گاڑیوں اور اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ ذوالفقار لون کا گھر نذر آتش کر دیا۔ لاہور میں احتجاجی وکلا نے پنجاب اسمبلی میں داخل ہونی کی کوشش کی۔ کئی مقامات پر پولیس نے احتجاجی مطاہرین کو روکنے کے لیئے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔
تفصیلات کے مطابق وکلا بار آفس کے قریب تجاوزات کو ہٹانے اور پراپرٹی کے ایک مقدمے کے حوالے سے بعض دستاویزات کے حصول کا مطالبہ کر رہے تھے، انہیں اس حوالے سے ٹاون کمیٹی کے انتظامی افسران سے تعاون نہ کرنے کا گلہ تھا۔ سوموار کے روز ٹی ایم او آفس میں ہونے والی ایک مییٹنگ کے دوران دونوں فریقین میں تلخی ہو گئی،اس موقعے پر وکلا نے ٹی ایم او پر مبینہ طور پر تشدد کیا۔ اس پر پولیس کو بلوایا گیا۔ مقامی سٹی تھانے کے ایس ایچ او نے اس موقعے پر کشیدہ صورتحال کے دوران طیش میں آکر فائرنگ کر دی جس سے دو وکلا ہلاک ہوگئے۔
تھانہ سٹی میں قتل کا مقدمہ ایس ایچ او شہزاد وڑائچ کے خلاف درج کرکے ایس ایچ او کو گرفتار کر لیا گیا۔ پنجاب حکومت نے ٹی ایم او کو معطل کر دیا ہے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر قریبی اضلاح سے پولیس کی بھاری نفری کو ڈسکہ پہنچا دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے رات گئے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منظور احمد ملک کی ہدایت پر ڈسکہ میں رینجرز بھی تعینات کر دی گئی ہے۔
ڈسکہ کے ایک شہری ارسلان افضل لون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہر میں زندگی کے معمولات مکمل طور پر معطل ہیں، لوگ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں، تمام بازار بند اور سرکلر روڈ پر موجود تمام فیکٹریاں بھی بند کر دی گئی ہیں۔ ایک مقامی وکیل آصف ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ہلاک شدگان کی نماز جنازہ منگل کی صبح ادا کی جائے گی۔
ادھر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے ڈسکہ میں وکلا کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات کی مذمت کی ہے۔
پنجاب حکومت نے کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی جائے گی۔
ادھر پنجاب اسمبلی نے ڈسکہ کے واقعے کے خلاف متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کی ہے، جب کہ یہاں اپوزیشن ارکان نے حکومت پر امن و امان کنٹرول نہ کر سکنے کا الزام لگاتے ہوئے ایوان سے واک آوٹ کیا ۔