ڈنمارک ميں مہاجرين سے متعلق متنازعہ قانون تنقيد کی زد ميں
21 جنوری 2016يورپی رياست ڈنمارک ميں آج بروز جمعرات اراکین پارلیمنٹ متنازعہ بل پر بحث و تمحیص کے بعد اُس کی منظوری کی رائے شماری میں شریک ہوں گے۔ امکانات ہيں کہ اسے بل کو منظور کر کے قانون کی شکل دے دی جائے گی۔ بل اُس پارلیمنٹ میں پيش کيا گیا ہے، جہاں وزير اعظم لارس لُوئکے راسموسن کی دائيں بازو کی برسر اقتدار جماعت کو انتہائی دائيں بازو کی مہاجرت مخالف پارٹی کی حمايت حاصل ہے۔ مجوزہ قانون کی ممکنہ منظوری کے بعد مہاجرين کی ’فيملی ری يونيفيکيشن‘ يعنی پناہ کی درخواست منظور ہونے کے بعد ان کے اہل خانہ کی بھی ڈنمارک آمد ميں مزيد تاخير متعارف کرائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ نئے قوانين کے تحت ڈنمارک آمد پر پناہ گزينوں سے ان کی قيمتی اشياء سرکاری تحویل میں لينا ممکن ہو گا اور اس يورپی رياست ميں مستقل قيام کے پہلے سے موجود قوانین کو اور بھی زيادہ سخت کر ديا جائے گا۔
ذرائع ابلاغ ميں بالخصوص ذاتی قيمتی اشياء ضبط کر ليے جانے کو خاصی توجہ حاصل رہی۔ بل کے تحت اگر پناہ گزينوں کے پاس مقامی کرنسی ميں دس ہزار کرونر يا تقريبا ساڑھے تيرہ سو يورو سے زيادہ برآمد ہوئے، تو انہيں ضبط کيا جا سکتا ہے اور يہ قانون اسی ماليت کی اشياء پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ قانونی ماہرين نے فيملی ری يونيفيکيشن کے قوانين ميں عائد کی جانے والی پابندی پر شدید تشویش کا اظہار کيا ہے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کی طرف سے خبردار کيا گيا ہے کہ اس قانون کی منظوری کے اثرات پورے يورپ ميں نمودار ہو سکتے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق مجوزہ بل ’اجنبيوں سے نفرت اور خوف ميں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔‘ جنوری ميں شائع کردہ ايک رپورٹ ميں مزيد کہا گيا ہے کہ ماضی ميں کبھی مہاجرين کے حقوق کا چيمپئن ملک ڈنمارک اس اقدام کی بدولت يورپی کنونشن برائے انسانی حقوق، بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی کنونشن اور اقوام متحدہ کی کنونشن برائے پناہ گزينوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔
ان تمام تر انتباہی بيانات کے باوجود کوپن ہيگن حکام مصر ہیں کہ وہ مزيد مہاجرين کو نہ تو پناہ دے سکتے ہيں اور ہی ان کا انضمام ممکن بنا سکتے ہيں۔ انضمام کے امور سے متعلق خاتون وزیر اِنگر اسٹوئے بیرگ نے کہا، ’’ڈنمارک کی اميگريشن پاليسی برسلز ميں نہيں کوپن ہيگن ميں طے ہوتی ہے۔‘‘
انسانی حقوق سے منسلک کئی تنظيموں اور کارکنوں نے ڈينش حکام کے ان اقدامات اور متنازعہ قانون کو سخت تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔