ڈوئچے ویلے: غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کے ساٹھ سال
18 جون 2013سترہ جون کو منعقد ہونے والی اس تقریب کا آغاز قدیم جرمن فوک گیت ’خیالات آزاد ہیں‘ سے ہوا۔ سترہ جون کی مناسبت سے اس سے بہتر گیت کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ ہر سال اس تاریخ کو سابقہ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک میں 1993ء میں ہونے والی عوامی بغاوت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ بون میں پرانی جرمن پا رلیمان کے اسمبلی روم میں اپنی خیر مقدمی تقریر میں ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل ایرک بیٹرمان نے کہا:’’جی ڈی آر (جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک) کے عوام آزادی، اظہار رائے اور پریس کی آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کے خواہاں تھے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق مغربی معاشروں کے بنیادی ستون ہیں، جو تمام ممالک میں مسلمہ حیثیت نہیں رکھتے۔ تقریباً پندرہ سو مہمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے بیٹرمان نے کہا:’’اسی لیے ڈوئچے ویلے 1953ء سے جرمن نقطہ نظر اور جرمن تجربات بین الاقوامی اور یورپی سطح پر متعارف کروا رہا ہے۔‘‘
جرمن وزیر مملکت برائے ثقافت اور میڈیا بیرنڈ نوئیمان نے کہا کہ بیرونی دنیا کے لیے یہ جرمن نشریاتی ادارہ بدستور زبردست اہمیت کا حامل ہے:’’ڈوئچے ویلے ہمارے کرہ ارض کے اُن علاقوں کے بہت سے انسانوں کے لیے، جہاں آزادی نہیں ہے، ایسی تازہ، سنسر اور ریاستی مفادات کے اثرات سے پاک معلومات کی فراہمی کا ذریعہ ہے، جن کی روشنی میں لوگ اپنی آزادانہ رائے تشکیل دے سکتے ہیں۔‘‘
ملٹی میڈیا ہاؤس، ایک سو ملین سے زیادہ صارفین کے ساتھ
نوئیمان نے کہا کہ ’اقتصادی معجزے کے دور کے بچے کے بالوں میں ساٹھ سال بعد چاندی جھلکنا شروع ہو گئی ہے لیکن ایک نشریاتی ادارے کے لیے یہی عمر کا بہترین دور ہے‘۔ اُنہوں نے اس ادارے کے اندر اصلاحات کی بھرپور صلاحیت کو سراہا اور کہا کہ تین مئی 1953ء کو ایک شارٹ ویو ریڈیو اسٹیشن کے طور پر کام کا آغاز کرنے والا یہ ادارہ اب ایک میڈیا ہاؤس میں بدل چکا ہے۔ مزید یہ کہ یہاں سے روزانہ تیس زبانوں میں پروگرام نشر ہوتے ہیں، جنہیں ساٹھ ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً تین ہزار مستقل اور فری لانسر کارکن تیار کرتے ہیں اور جن سے 100 ملین سے زائد صارفین استفادہ کرتے ہیں۔
نوئیمان اور بیٹرمان دونوں نے اس امر پر زور دیا کہ جرمنی کے لیے ڈوئچے ویلے ناگزیر ہے اور یہ کہ اسے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ نوئیمان نے شکایت کی کہ ماضی میں بجٹ میں کٹوتیاں کرتے وقت کئی بار ڈوئچے ویلے کے ساتھ ’زیادتی‘ کی گئی ہے لیکن یہ کہ وہ بدستور یہ کوشش کرتے رہیں گے کہ ڈوئچے ویلے کو ایک مستحکم بجٹ ملتا رہے۔
ڈوئچے ویلے کے استحکام کے لیے نیا معاہدہ
اس تقریب کے مقررین کے لیے مالی وسائل کی یقینی فراہمی کے ساتھ ساتھ اشتراک عمل کا وہ نیا معاہدہ بھی عالمگیر سطح پر ڈوئچے ویلے کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کا ضامن تھا، جو ڈوئچے ویلے اور جرمنی کی پبلک براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے اداروں ARD، ZDF اور ڈوئچ لانڈ ریڈیو کے درمیان طے پایا ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والے اتفاقِ رائے پر ابھی چند روز پہلے جرمن صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے، جن کے دائرہ اختیار میں پبلک براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ادارے آتے ہیں اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے کے تحت ان پبلک براڈکاسٹنگ ہاؤسز کے ریڈیو اور ٹی وی چینل آئندہ ڈوئچے ویلے کو زیادہ مقدار میں پروگرام فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے پایا ہے کہ آئندہ مل جُل کر زیادہ پروگرام تیار کیے جائیں گے۔ اب سے پہلے تک ڈوئچے ویلے اور ان اداروں کے درمیان پروگراموں کا تبادلہ ہوتا تو تھا تاہم یہ کئی ایک شرائط سے جڑا ہوا تھا، جنہیں اب نئے معاہدے میں سادہ اور آسان بنا دیا گیا ہے۔
نوئیمان کا کہنا تھا کہ اے آرڈی، زیڈ ڈی ایف اور ڈوئچ لانڈ ریڈیو کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے تعاون کا مقصد یہ ہے کہ ان اداروں کے انتہائی اعلیٰ معیار کے پروگراموں کو اب تک کے مقابلے میں آئندہ کہیں زیادہ بیرونی دنیا کے لیے بھی استعمال میں لایا جا سکے۔ اُنہوں نے اس تعاون کے لیے ڈوئچے ویلے کے ڈائریکٹر جنرل ایرک بیٹرمان کی کئی برسوں پر محیط اُن کوششوں کا بھی شکریہ ادا کیا، جو اب بیٹرمان کے دور کے اختتام پر حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں۔
ARD کے سربراہ کے بقول دونوں فریق فائدے میں
اس تقریب میں ARD کے چیئرمین لُٹس مارمور بھی موجود تھے، جنہوں نے کہا کہ اس معاہدے سے دونوں فریق فائدے میں رہیں گے۔ اُنہوں نے کہا:’’اے آر ڈی میں اپنے ساتھی کارکن خواتین و حضرات کی جانب سے میں آپ کو آج بخوشی اپنے تعاون کا یقین دلاتا ہوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، اس سے زیادہ اچھا کیا ہو گا کہ جرمنی کے اندرونی نشریاتی اداروں کے تیار کردہ معیاری پروگرام بیرونی دنیا میں بھی پیش کیے جا سکیں؟ مارمور نے کہا:’’مستقبل کے لیے ضروری بنیادیں متعین کی جا چکی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہےکہ جو کچھ کاغذ پر درج ہے، اُسے مل جُل کر حقیقت کا روپ دیا جائے۔‘‘
A.Drechsel/aa/km