ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکا کیسا ہو گا؟
28 اپریل 2016
ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، ’’سب سے پہلے امریکا‘‘
’’میری خارجہ پالیسی میں امریکی عوام اور امریکی سلامتی کو ہر شے پر ترجیح دی جائے گی۔ یہی سب سے پہلے آنے چاہیئں۔ یہی میرے ہر فیصلے کی بنیاد ہو گی۔‘‘
اوباما کی خارجہ پالیسی ایک سانحہ
’’ہماری موجودہ خارجہ پالیسی ایک مکمل تباہی ہے۔ اس میں نہ دور اندیشی ہے، نہ ہی اس کا کوئی مقصد ہے، نہ سمت ہے اور نہ ہی حکمتِ عملی۔‘‘
اتحادیوں کو اخراجات میں مناسب حصہ ملانا ہو گا
’’ہمارے اتحادی دفاعی اخراجات میں اپنا مناسب حصہ نہیں ملاتے۔ میں نے اس بارے میں حالیہ دنوں میں خاصی بات کی ہے۔ ہمارے اتحادیوں کو ہر حال میں سیاسی، مالیاتی اور فوجی اعتبار سے اپنا حصہ ملانا ہو گا، تاکہ امریکا پر سکیورٹی کا بے انتہا بوجھ کم ہو سکے۔
اسرائیل پر تنقید
’’اسرائیل ہمارا انتہائی گہرا دوست اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک حقیقی جمہوریت ہے، جسے موجودہ امریکی انتظامیہ تنقید اور دباؤ کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ کچھ روز قبل نائب صدر جوبائیڈن نے اسرائیل پر تنقید کی، اسرائیل جو انصاف اور امن کی قوت ہے۔‘‘
اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کمزور ردعمل
’’اسلامک اسٹیٹ تنظیم ہفتہ وار بنیادوں پر لاکھوں کروڑوں ڈالر کا تیل لیبیا سے چرا کر بیچ رہی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے اب تک اس کا راستہ نہیں روکا نہ ہی بمباری کی۔ ہم نے اب تک اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کچھ ایسا ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے، جیسے ہمارے ملک کو اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ یہ ایک حقیقت اور سچ ہے۔ جب میں صدر بنوں گا تو یہ سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔‘‘
فوج کی ازسرنو تعمیر
’’ہم اپنی فوج کی تعمیرنو کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ یہ سب سے کم لاگت کی سب سے اہم سرمایہ کاری ہے۔ ہم انسانی تاریخ کے سب سے بہترین عسکری آلات تیار کریں گے۔ ہماری فوجی برتری پر کوئی بھی سوال اٹھانے کی جرات نہ کرے۔ اور جب میں یہ کہتا ہوں تو اس کا مطلب ہے روئے زمین پر کوئی بھی شخص۔‘‘
روس اور چین دوست بن سکتے ہیں
’’ہماری خواہش ہے کہ ہم چین اور روس کے ساتھ دوستی اور امن کو فروغ دیں۔ ہمارے درمیان سنجیدہ اختلافات ہیں۔ ہمیں کھلی آنکھوں سے سب کا احترام کرنا چاہیے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم دوسرے کے موقف کو تسلیم کر لیں۔ ہمیں مشترکہ میدان اور مشترکہ مفادات تلاش کرنا ہوں گے۔‘‘
دنیا کے لیے امن
’’دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم دنیا میں یہاں وہاں دشمن بنانے کے لیے نہیں جاتے۔ ہمیں بتانا ہو گا کہ ہمیں پرانے دشمنوں کو نیا دوست بنا کر اور پرانے دوستوں کو نیا اتحادی بنا کر خوشی ہوتی ہے۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اتحادی بن جائیں۔ ہم دنیا میں امن واپس لانا چاہتے ہیں‘‘۔