ڈھاکا کیفے حملے کا ’مشتبہ ماسٹر مائنڈ‘ پولیس مقابلے میں ہلاک
6 جنوری 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ڈھاکا پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے چھ جنوری بروز جمعہ دارالحکومت ڈھاکا کے ایک علاقے میں واقع ایک گھر پر چھاپہ مارا تو فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ اس کارروائی میں دو مشتبہ جنگجو مارے گئے گئے، جن کی شناخت نور الاسلام مرجان اور صدام حسین کے نام سے کی گئی ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ان دونوں کی لاشیں قبضے میں لے لی گئی ہیں۔
بنگلہ دیش کا ’نائن الیون‘ لیکن ’حکومت مسلسل انکار کی کیفیت میں‘
بنگلہ دیش میں حملوں کی ذمے داری، داعش کے ’جھوٹے دعوے‘
بنگلہ دیش میں جہادیوں کے مضبوط ہوتے قدم: امریکا کی تشویش
بنگلہ دیشی پولیس کے اعلیٰ اہلکار اے کے ایم شاہد الحق نے اے ایف پی کو بتایا، ’’مرجان اور اس کا ساتھی صدام حسین پولیس مقابلے میں مارے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’مرجان یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک کیفے میں ہوئے حملے کا آپریشنل کمانڈر تھا۔ وہ اس حملے کا ایک ماسٹر مائنڈ بھی تھا۔‘‘
ڈھاکا کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر یوسف علی کے مطابق جمعے کی علی الصبح ہوئی اس کارروائی کے بعد دونوں ’مشتبہ انتہا پسندوں‘ کی لاشیں مل چکی ہیں۔ مرجان کی عمر تیس کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔ یکم جولائی کو ڈھاکا کے ایک پوش علاقے میں واقع ایک کیفے میں ہوئے اس حملے کے نتیجے میں اٹھارہ غیر ملکیوں سمیت کل بیس افراد مارے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد بنگلہ دیشی حکومت نے مسلم انتہا پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر دی تھی کیونکہ اس حملے کے باعث بنگلہ دیش کے بطور ایک اعتدال پسند مسلم ملک کی شناخت بھی متاثر ہوئی تھی۔ ڈھاکا کیفے پر حملے کے بعد ملکی سکیورٹی فورسز مختلف کارروائیوں میں کم ازکم پچاس مسلم انتہا پسندوں کو ہلاک کر چکی ہے۔
ڈھاکا میں انسداد دہشت گردی پولیس کے نائب مبین الاسلام خان کے مطابق مرجان چٹاگانگ یونیورسٹی میں عربی زبان کے شعبے کا طالب علم تھا، جس نے بعد ازاں پڑھائی چھوڑ کر ممنوعہ ’جمعیت مجاہدین بنگلہ دیش‘ کی ایک ذیلی تنظیم سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ اس عسکری تنظیم پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ڈھاکہ کے کیفے پر ہوئے حملے میں ملوث تھی۔ مبین الاسلام خان نے بتایا ہے کہ خفیہ معلومات سے معلوم ہوا ہے کہ ڈھاکا کے کیفے پر حملے کی منصوبہ بندی میں مرجان بھی شامل تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے بنگلہ دیش میں بالخصوص غیر ملکیوں، انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں، سکیولر بلاگرز، مصنفین اور اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ ایسے کئی حملوں کی ذمہ داری داعش یا القاعدہ نے قبول کی ہے لیکن وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں یہ تنظیمیں فعال نہیں ہیں بلکہ یہ حملے مقامی عسکری گروہوں نے سرانجام دیے ہیں۔