ڈیجیٹل خواب کی تکمیل، مودی سیلیکون ویلی جائیں گے
24 ستمبر 2015بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے دالدادہ ہیں۔ وہ فیس بک بھی انتہائی باقاعدہ سے استعمال کرتے ہیں اور ٹوئٹر بھی۔ وہ ان ویب سائٹس کے ذریعے اپنے مداحوں اور عوام کو اپنی حکومت کے کاموں سے باخبر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مودی نے ڈیجیٹل میڈیا کی ایک مہم بھی شروع کر رکھی ہے، جس کی مدد سے وہ بھارت میں علم و آگاہی کے حصول اور ترقیاتی کاموں کے لیے ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کے لیے سرگرم ہیں۔
اپنے ایک حالیہ فیس بک پیغام میں مودی نے لکھا، ’’ بھارت مختلف شعبوں میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے مزید کامیاب بنا دیا جائے۔ ہم چاہتے کہ اس ابتدائی مرحلے میں ہی دنیا ہماری اختراعی صلاحیتوں کی معترف ہو جائے۔‘‘
نریندر مودی نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد سیلیکون ویلی جائیں گے۔ وہ اقوام متحدہ کی جزل اسمبلی کے موقع پر متوقع طور پر امریکی صدر باراک اوباما سے بھی ملیں گے۔
یہ امر اہم ہے کہ 1982ء کے بعد پہلی مرتبہ کوئی بھارتی وزیر اعظم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قائم سیلیکون ویلی کا دورہ کر رہا ہے۔ سیلیکون ویلی کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے انتہائی معتبر قرار دیا جاتا ہے اور وہاں بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کے صدر دفاتر قائم ہیں۔
مودی کے اس دورے کے دوران فیس بک، ایپل، گرین کار میکر تیسلا اور گوگل جیسی معروف کمپنیوں کی کوشش ہو گی کہ وہ بھارت میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کوئی منصوبہ حاصل کر لیں۔ مودی متوقع طور پر مختلف کمپنیوں کے اعلیٰ اہلکاروں سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔
سٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ ٹیکنالوجی کے ماہر ویوک ودہوا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’معلوم ہوتا ہے کہ مودی علم رکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھارت کو درپیش بہت سے مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ مودی اس مقصد کے لیے ٹیکنالوجی کے دارالحکومت ’سلیکیون ویلی‘ میں تعلقات قائم کر لیں۔
سماجی مسائل کی نشاندہی کرنے والی کمپنی SocialCops کے شریک بانی پروکالپا سنکار نے بھی بھارت میں ٹیکنالوجی کی ترقی کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے، ’’جب سے مودی نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے، تب سے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔‘‘
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی ترقی کرتی ہوئی معیشت اور وہاں بسنے والے انسانوں کی بہت بڑی تعداد بہت سی بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے کشش کا باعث ہے کہ وہ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں سرمایہ کاری کریں۔