ژوب فوجی چھاونی پر طالبان کا حملہ پانچ فو جی اہلکار ہلاک
12 جولائی 2023حملے کی ذمہ داری حال ہی میں منظر عام پر آنے والی شدت پسند تنظیم تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔ ٹی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے میں تنظیم کے خودکش حملہ آوروں نے حصہ لیا ہے اور پاکستانی فوجی چھاونی کا ایک حصہ بدستور ان کے قبضے میں ہے۔
پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ، آئی ایس پی آر نے تصدیق کی ہے کہ ژوب چھاونی پر ہونے والے حملے میں ملوث تین حملہ آور اب تک ہلاک کیے گئے ہیں اور دیگر روپوش ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے۔
کیا پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک اور جنگ کی طرف جا رہا ہے؟
بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا حملہ، میجر سمیت دو فوجی ہلاک
آئی ایس پی آر کے مطابق، ’’فوجی کیمپ پر عسکریت پسندوں نے آج علی الصبح حملہ کیا اور وہ چھپ کر چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت کلیئرنس آپریشن جاری ہے اور علاقے کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لیا گیا ہے۔‘‘
خودکش حملہ آوروں کا ہدف کیا تھا؟
کوئٹہ میں تعینات ایک سینیئر انٹیلی جنس اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ خودکش حملہ آور فوجی چھاونی کے مرکزی حصے اور موجود تنصیبات تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ژوب میں فوجی چھاونی پر حملے میں ملوث عسکریت پسند میس کی طرف سے داخل ہوئے۔ حملہ آور جدید ہتھیاروں سے لیس تھے۔ یہ ایک غیر متوقع حملہ تھا اور ملزمان چھاؤنی کے مرکزی اور سب سے حساس حصے تک پہنچ کر اسے تباہ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔‘‘
انٹیلی جنس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ مقابلے میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کی لاشیں سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہیں۔ ان کے بقول، ’’ہلاک عسکریت پسندوں کی شناخت تاحال ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ہلاک شدگان غیرمقامی ہیں۔‘‘
حملے کے حوالے سے عینی شاہدین کا مؤقف
ایک عینی شاہد، لال محمد کہتے ہیں کہ حملے کے دوران شدید فائرنگ کی زد میں آکر مقامی شہر ی بھی زخمی ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ علاقہ بہت حساس ہے۔ یہاں جب اچانک فائرنگ شروع ہوئی تو علاقے میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔ فائرنگ کے دوران یہاں سے گزرنے والی ایک بس اور دو دیگر گاڑیوں میں بھی گولیاں لگیں جس کے باعث ایک خاتون سمیت متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔‘‘
ژوب چھاونی سے متصل دیہات میں مقیم سید جلال کہتے ہیں مقامی انتظامیہ اگر لوگوں کو بروقت مطلع نہ کرتی تو حملے کے دوران دوطرفہ فائرنگ سے بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوسکتی تھیں۔
ڈی ڈبلیو کو حملے کاانکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فائرنگ اتنی شدید تھی کہ کئی لوگوں کے گھروں کے باہر بھی گولیاں لگیں۔ ہمیں انتظامیہ کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ فائرنگ چھاؤنی کے حدود میں ہو رہی ہے اس لیے احتیاطی تدابیر کے تحت ہمیں گھروں سے باہر نکلنے کی فی الوقت اجازت نہیں۔‘‘
بلوچستان کے پشتون قبائلی علاقوں میں بڑھتی ہوئی شورش
سکیورٹی امور کے تجزیہ کار، میجر (ر) عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان کے بلوچ علاقوں کے بعد پشتون اکثریتی علاقوں میں بڑھتی ہوئی حالیہ شورش خطے کو غیرمستحکم کرنے کی ایک بڑی سازش ہے: ’’بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں اس وقت ایک منظم پلان کے تحت بدامنی پھیلائی جار ہی ہے۔ شدت پسند اور ملک دشمن عناصر مختلف ناموں سے یہاں کام کر رہے ہیں۔ اس خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو حالات مزید گھمبیر شکل اختیار کر سکتے ہیں۔‘‘
عمر فاروق کا کہنا تھا کہ ضرورت اس امر کی ہےکہ حکومت قیام امن کے لیے سب سے پہلے مقامی قبائل کو اعتماد میں لے: ’’اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہاں بدامنی غیرملکی سرمایہ کاری کو سبوتاژ کرنے کے لیے پھیلائی جا رہی ہے لیکن حکومت کو جو بھی اقدامات کرنے ہیں وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھے بغیر سود مند ثابت نہیں ہوسکتے۔ پاک افغان سرحدی علاقے شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اکثر اوقات شدت پسند مقامی قبائلی کے کور میں روپوش ہوتے ہیں۔ قبائل کے تعاون سے شدت پسندوں کے عزائم ناکام بنائے جا سکتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ ژوب چھاؤنی پر پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری جس نئی تنظیم نے قبول کی ہے وہ اس سے قبل، قلعہ سیف اللہ اور ضلع سبی میں ہونے والے دو دیگر بڑے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرچکی ہے۔