کابل اور نئی دہلی کے مابین فضائی تجارتی راہداری قائم
20 جون 2017پیر 19 جون کو افغان صدر محمد اشرف غنی نے کابل کے حامد کرزئی ایئر پورٹ پر پانچ ملین ڈالر مالیت کی 60 ٹن جڑی بوٹیوں اور دیگر قیمتی زرعی اجناس سے بھرے ایک طیارے کو نئی دہلی کے لیے روانہ کیا۔ ان کے ہمراہ ہندوستان کے سفیر من پریت ووہرا اور افغان کابینہ کے متعدد ارکان بھی موجود تھے۔ اس پیشرفت کو ایک اہم سنگ میل کا نام دیا گیا۔ خشکی میں گھرا افغانستان ہمیشہ سے ہی ٹرانزٹ تجارت کے لیے پاکستان کی کراچی بندرگاہ پر انحصار کرتا آیا ہے تاہم دونوں ممالک کے سیاسی تعلقات میں حالیہ کشیدگی اور سرحد پار دہشت گردی کے الزامات نے جو متعدد بار سرحدی بندش کا بھی سبب بنے، کابل کو متبادل ڈھونڈنے پر مجبور کردیا۔
دہلی اور کابل نے گزشتہ برس ستمبر میں آگرہ میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا سمٹ میں اس ’’ایریئل کوریڈور‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا اور اب بالآخر اسے عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اسی سلسلے کی اگلی پرواز آئندہ ہفتے جنوبی شہر قندہار سے نئی دہلی کے لیے روانہ ہوگی۔ اسی طرح ہندوستان سے بھی تجارتی پروازیں شیڈول ہیں۔
افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر خان جان الکوزئی تسلیم کرتے ہیں کہ زمینی راستے کے مقابلے میں فضائی راستے سے تجارت خاصی مہنگی پڑتی ہے تاہم افغان تاجر پاکستانی راہداری کی متعدد بار اچانک اور طویل بندش سے تنگ آچکے ہیں، ’’ابھی ہمارے اور ہندوستان کے مابین جو معاہدہ طے پایا ہے اس کے مطابق افغانستان کی برآمدات پر بیس سینٹ فی کلو گرام اور بھارت سے درآمدات پر چالیس سینٹ فی کلوگرام کی لاگت آئے گی۔‘‘
یاد رہے کہ افغانستان اور پاکستان کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ APFTA موجود ہے۔ کابل اور نئی دہلی متعدد بار اسلام آباد سے اس معاہدے میں بھارت کو بھی شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈال چکے ہیں مگر بے سود۔ موجودہ مفاہمت کے مطابق افغان تاجر اپنی اشیا پاکستان کے راستے بھارت بھیج سکتے ہیں مگر واپسی میں بھارت سے سامان نہیں لاسکتے۔ افغان صدر اشرف غنی نے ’’ایریئل کوریڈور‘‘ کے افتتاح کے موقع پر پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا خطے کے ممالک ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے بجائے تجارتی لین دین کے فروغ کا سبب بنیں۔
کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب سے تجارت کے فروغ میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ پاکستان کی فیڈرل چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر غلام علی مانتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت گزشتہ دو برسوں میں کافی کم ہوئی ہے، ’’بہرحال فضائی تجارتی ایک مہنگا آپشن ہے، طویل مدت تک اسے جاری رکھنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔‘‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق دونوں ممالک کی سالانہ تجارت قریب تین ارب ڈالر سے گھٹ کر پانچ سو ملین ڈالر تک رہ گئی ہے۔