کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے، طالبان
28 مارچ 2020افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ کابل حکومت کی ٹیم کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ یہ مختلف دھڑوں پر مشتمل ایک نمائندہ وفد نہیں ہے۔ طالبان کے اس بیان کو امریکا کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے لیے ایک دہچکا قرار دیا گیا ہے۔ یہ مذاکرات ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں منعقد کیے جائیں گے۔
طالبان کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن کے ساتھ شروع ہونے والے مذاکرات کے لیے مختلف افغان گروپوں کے نمائندوں پر وفد کی تشکیل ڈیل کا حصہ ہے۔ مذاکراتی عمل میں شرکت سے انکار کا بیان افغان ترجمان نے ہفتہ اٹھائیس مارچ کو جاری کیا۔ کابل حکومت نے اس نئی پیش رفت پر ابھی کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
کابل حکومت نے جمعہ ستائیس مارچ کو افغان طالبان کے ساتھ وسیع تر امن کے قیام کی بات چیت کے لیے ایک اکیس رکنی ٹیم کا اعلان کیا تھا۔ مذاکراتی ٹیم میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس وفد کی تشکیل کی تعریف طالبان کے ساتھ امن ڈیل طے کرنے والے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بھی کی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے اس مذاکراتی ٹیم کو جامع قرار دیا ہے۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں نے افغانستان میں جامع امن کے قیام کے لیے کابل حکومت کی نمائندہ ٹیم اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ اسی مذاکراتی عمل کو افغانستان میں امن کے ساتھ ساتھ ایک پائیدار حکومت کی تشکیل کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ اس بات چیت میں تاخیر سے امریکا کے ساتھ طے پانے والی ڈیل کے کمزور ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
ابھی تک طالبان نے افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت شروع کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے بعد خیال کیا گیا تھا کہ کابل حکومت اور طالبان ایک میز پر بیٹھنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ امریکا اور طالبان کے مابین امن ڈیل انتیس فروری کو خلیجی ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پائی تھی۔
ان مذاکرات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں پیدا سنگین اقتدار کی رسہ کشی ہے۔ مسندِ صدارت پر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ عبداللہ عبداللہ بھی دعویٰ رکھتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی اس کشیدہ صورتِ حال میں کمی لانے میں ناکام رہے ہیں۔
ع ق / ع آ (نیوز ایجنسیاں)