کابل میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول
6 اکتوبر 2013اس فیسٹیول کے منتظمین کے مطابق اس چھ روزہ فلمی میلے کا مقصد انسانی حقوق سے متعلق معاملات، سماجی نا انصافی، امتیازی سلوک، جنگ اور تشدد جیسے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میلے کے دوران 21 ممالک کی 75 فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی۔ ان میں دستاویزی فلموں سے لے کر مکمل دورانیے کی فیچر فلمیں اور اینیمیٹڈ فلمیں بھی شامل ہیں۔ فیسٹیول کے منتظمین میں سے ایک اور افغان سنیما کلب کی ڈائریکٹر ڈیانا ثاقب کے مطابق، ’’ہمیں دنیا بھر سے 380 فلمیں موصول ہوئیں۔‘‘
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں 200 کے قریب افغان اور بین الاقوامی فلم ساز، فعالیت پسند، سیاستدان، مصنفین، صحافی اور طلبہ شریک ہوئے۔ ثاقب کے مطابق جیوری کی طرف سے انٹرنیشنل، نیشنل اور طلبہ کے فلم مقابلوں کے لیے آٹھ فلمیں منتخب کی جائیں گی۔ جیتنے والوں کو نقد انعامات بھی دیے جائیں گے۔
میلے کے لیے شارٹ لسٹ کی گئی 75 فیچر فلموں میں سے 33 افغانستانی فلم سازوں کی کاوش ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق بعض فلمیں متنازعہ موضوعات پر بھی بنائی گئی ہیں، مثلاﹰ جنسی زیادتی اور زبردستی کی شادیاں، ایران میں افغان مہاجرین کی صورتحال، 12 سالہ افغان جنگ میں نیٹو کا کردار اور کابل شہر میں بہت کم تعداد میں خواتین ڈرائیورز وغیرہ۔
اس فیسٹیول میں شریک اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم شِدا موبتکر کے بقول، ’’افغانستان جیسےملک میں جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک عام بات ہیں، انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ میں جمالیاتی سرگرمیوں کا کافی اثر رہا ہے۔‘‘
اس فلمی میلے میں شریک جلال الدین کے مطابق ملک میں 30 برس سےجاری جنگ کے باعث، ’’ہمیں سنیما کے حوالے سے آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں مل پایا۔ نہ ہی یہاں فلمیں بنانے کے مواقع میسر تھے۔ اس طرح کے فلمی میلے ہمیں ایک کھلے معاشرے تک لے جائیں گے۔‘‘
انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر مالک شفیع کے مطابق اس میلے کے دوران ورکشاپس اور ڈسکشن کے سیشنز بھی ترتیب دیے گئے ہیں: ’’آرٹ اور انسانی حقوق کی اہمیت سے متعلق ڈسکشن اور ڈائیلاگ کے لیے یہاں نہایت شاندار مواقع میسر ہوں گے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال ’نازک ہے مگر مایوس کُن نہیں‘۔
مالک شفیع کے مطابق، ’’ہم ایک بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں مگر ہم مضبوط ہو کر ابھریں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر کئی علامات کی طرح یہ فیسٹیول بھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی ایک نشانی ہے۔