کابل میں خواتین کا احتجاج، طالبان کی طرف سے بذور قوت منتشر
13 اگست 2022افغان خواتین نے کئی مہینوں بعد پہلی مرتبہ کابل میں اپنے حقوقکے لیے ایک مظاہرہ کیا۔ تقریبا 40 خواتین کے گروپ نے بھوک کے بحران کے حوالے سے ’’خوراک، کام اور آزادی‘‘ جیسے نعرے لگائے اور اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے کام کرنے، تعلیم اور نقل و حرکت کے حقوق پر طالبان کی عائد کردہ پابندیوں کے خلاف بھی نعرے لگائے۔
ان خواتین میں سے کچھ نے اپنے چہرے بھی نہیں ڈھانپے ہوئے تھے۔ مظاہرین نے ’’انصاف، انصاف، ہم جہالت سے تنگ آ چکے ہیں‘‘ کے نعرے بھی بلند کیے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طالبان فورسز نے وزارت تعلیم کی عمارت کے قریب شہر کے وسط میں اس مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اور خواتین پر حملہ آور بھی ہوئے۔
ایک اور ویڈیو کلپ میں دیکھا گیا کہ خواتین کے ایک چھوٹے سے گروپ کو ایک بند جگہ پر طالبان فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور کچھ کو طالبان جنگجوؤں نے اپنی رائفل کے بٹوں سے بھی مارا۔
احتحاجی مارچ کے منتظمین میں سے ایک ژولیا پارسی نے کہا، ’’بدقسمتی سے انٹیلی جنس سروس کے طالبان آئے اور انہوں نے ہوائی فائرنگ کی۔ انہوں نے لڑکیوں کو منتشر کیا، ہمارے بینرز پھاڑ دیے اور بہت سی لڑکیوں کے موبائل فون چھین لیے۔‘‘
قریب ایک برس قبل نیٹو فورسز کے انخلا کے بعد طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔ طالبان 15 اگست 2021 کو اقتدار میں واپس آئے تو انہوں نے ماضی کے دور اقتدار کے سخت اسلامی قوانین کے برعکس نرمی اختیار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
تاہم طالبان نے دوبارہ اسلامی قوانین کی سخت تشریح پر عمل کرتے ہوئے خاص طور پر خواتین پر پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ افغان لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں اور اس کے بعد تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں پر واپس جانے سے روک دیا گیا ہے۔
خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کردی اور وہ دارالحکومت میں عوامی باغات اور پارکوں کا دورہ بھی اس وقت کر سکتی ہیں جن دنوں مرد وہاں نہ ہوں۔
اس برس مئی میں خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ عوامی مقامات پر خود کو کسی برقعے سے مکمل طور پر ڈھانپ لیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے کارکن طالبان کے ان فیصلوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب تک طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔
ش ح/ ا ب ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)