1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

کابل ڈرون حملے کے لیے امریکی فوجیوں کو کوئی سزا نہیں

14 دسمبر 2021

امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ڈرون حملے کے لیے کسی بھی فوجی یا اہلکار کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ گزشتہ اگست میں ہونے والے اس حملے میں سات بچوں سمیت دس عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

https://p.dw.com/p/44DtX
Afghanistan Kabul | US-Raketenangriff
تصویر: Khwaja Tawfiq Sediqi/AP Photo/picture alliance

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے 13 دسمبر پیر کے روز کہا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں گزشتہ اگست کے اواخر میں کیے جانے والے ڈرون حملے کے لیے کسی بھی فوجی یا دیگر اہلکار کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس امریکی حملے میں سات افغان بچوں سمیت دس عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

گزشتہ ماہ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایک اندرونی جائزے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ 29 اگست کو افغان دارالحکومت میں ہونے والے اس حملے میں کسی جنگی قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ حملہ کسی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہوا تھا۔

پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو اس حملے سے متعلق جو اعلیٰ سطحی جائزے کی رپورٹ حاصل ہوئی ہے، اس میں جوابدہی کی کوئی سفارش نہیں کی گئی تھی۔

جان کربی کا کہنا تھا، ''انہوں نے ان کی سفارشات تسلیم کر لی ہیں اور وہ اس سلسلے میں کسی اضافی احتسابی اقدام کی مانگ نہیں کر رہے ہیں۔ '' جان کربی نے مزید کہا، ''ذاتی احتساب کے لیے یہ اتنا مضبوط کیس نہیں تھا۔''

امریکا نے انتیس اگست کو کابل پر یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا تھا جب بیرونی افواج کا انخلا اپنے آخری مرحلے میں تھا اور بہت سے افغان بھی ملک چھوڑنے کی کوشش میں تھے۔ اس وقت کابل ایئر پورٹ اور اس کے آس پاس افراتفری کا ماحول تھا۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسی خفیہ معلومات ہیں کہ شدت پسند تنظیم داعش کے ارکان انخلا کے عمل میں رخنہ اندازی کے لیے خود کش حملہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اسی کو روکنے کے لیے ڈرون کی مدد سے اس کار کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا، جس کے بارے میں شک تھا کہ دھماکا خیز مواد سے بھری یہی گاڑی حملے کے لیے استعمال ہو گی۔

تاہم اس حملے میں ایک ایسا خاندان مارا گیا جس کا ایک فرد خود ایک امریکی امدادی ایجنسی کے لیے کام کرتا تھا۔ اس میں سات بچوں سمیت دس بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

Afghanistan US-Drohnenangriff in Kabu
تصویر: Khwaja Tawfiq Sediqi/AP Photo/picture alliance

نومبر میں امریکی فضائیہ کے ایک افسر لیفٹنٹ جنرل سمیع سعید نے اس سے متعلق اپنی ابتدائی تفتیشی رپورٹ میں اس حملے کو افسوسناک لیکن ''ایک ایماندارانہ غلطی'' قرار دیا تھا۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر سینیئر فوجی افسران نے وزیر دفاع کو اپنی سفارشات پیش کیں تاہم اس میں کسی بھی فوجی یا اہلکار کو سزا دینے کی کوئی سفارش نہیں کی گئی تھی۔

جان کربی کا کہنا تھا، ''ہم نے اس واقعے میں جو کچھ بھی دیکھا وہ اس پر عمل درآمد اور طریقہ کار کے واقعات میں خرابی تھی، یہ غفلت برتنے اور بد انتظامی کا نتیجہ نہیں تھی، نہ ہی کمزور قیادت کا نتیجہ تھی۔ اگر لائیڈ آسٹن کو اس بات کا یقین ہوتا کہ اس میں جوابدہی طے کرنا ضروری ہے، تو وہ یقینی طور پر اس قسم کی کوششوں کی حمایت کرتے۔''

زر تلافی کا وعدہ

افغان شہری ضمیر احمدی ایک غیر سرکاری امریکی ادارے 'نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل‘ (این ای آئی) کے لیے کام کرتے تھے جو اس حملے میں اپنے خاندان سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔ امریکی خفیہ ادارے نے انہیں غلطی سے داعش کے ایک شدت پسند کے طور پر شناخت کر کے ڈورن حملے کا نشانہ بنایا تھا۔

  پینٹاگون نے اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ اس امریکی حملے میں غلطی کی تصدیق ہو جانے کے بعد امریکا نے متاثرہ خاندانوں کی مدد کا وعدہ کیا ہے، جس میں زر تلافی کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ امریکی فوجی حکام نے بھی بعد میں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ اس فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے احمدی اور دیگر نو افراد کا داعش سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

اگست میں کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر داعش کے ایک خود کش حملہ آور نے ایک بم حملے میں 13 امریکی فوجیوں اور درجنوں افغان شہریوں سمیت بیسیوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور اس حملے کے تین دن بعد امریکا نے وہ ڈرون حملہ کیا تھا، جو دس شہری ہلاکتوں کا باعث بنا اور اسٹریٹیجک غلطی ثابت ہوا تھا۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)

خودکش بمبار کیسے تیار کیے جاتے ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں