کابل کے لنڈا بازار کی اجنبی گڑیا
18 ستمبر 2021دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو وہاں جنگ کے دوران اور اُس کے بعد کا منظر کم و بیش ایک ہی سا نظر آتا ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں شام کی خانہ جنگی، مہاجرین کا بحران اور روہنگیا پناہ گزینوں سے متعلق خبروں کے ساتھ مختلف ویڈیوز اور فوٹوز کا ایک سیلاب رواں تھا۔ ان میں اکثر مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔ کچھ تصاویر انسانی ذہن پر بہت گہرے نقوش چھوڑتی ہیں۔ اسی طرح ایک تصویر ابھی حال ہی میں میرے ذہن و ادراک کو جھنجھوڑنے کا سبب بنی۔ کابل لنڈا بازار کی نگاہوں سے گزرنے والی تصاویر میں سے ایک تصویر پر میری نگاہیں ٹھہر سی گئیں اور ذہن میں بہت سے سوالات اُبھرے۔
جب جنگی ساز و سامان کھلونے بن جائیں
اس تصویر میں ایک افغان باشندہ ہاتھ میں ایک گڑیا لیے لنڈا بازار میں کھڑا ہوا ہے۔ گڑیا کا سائز چند ماہ کے بچے جتنا ہے۔ اس شخص نے اسے بالکل اُسی انداز میں دائیں بازو میں اُٹھا رکھا ہے، جیسے اکثر لوگ کچھ مہینے کے بچے کو اُٹھاتے ہیں۔ اس گڑیا کے نین نقش بالکل مغربی ہیں۔ اس نے، جو لباس پہن رکھا ہے، وہ بھی مغربی بچیوں کا لباس ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی گڑیا سے کیا کوئی افغان بچی کھیلتی ہو گی، جسے خود بہت ہی بند ماحول اور خاص قسم کے لباس پہنا کر رکھا جاتا ہے؟
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طالبان اپنے ملک میں مغربی ثقافت کی آئینہ دار اس شکل و صورت کی گڑیا سے افغان بچیوں کو کھیلنے کی اجازت دیں گے؟ اگر نہیں تو پھر یہ گڑیا اب کابل میں کون خریدے گا؟ اگر یہ نہ بکی تو یہ کس گھر میں سجائی جائے گی؟ اس گڑیا کی قیمت کیا ہو گی، اسے کس داموں بیچنے کی کوشش کی جائے گی؟ اگر کسی بچی کے باپ نے اپنی بیٹی کی خواہش پر اس گڑیا کو خریدنے کی جسارت کی بھی تو کیا اُس کے پاس اتنے پیسے ہوں گے کہ وہ اپنی بچی کی خواہش پوری کر سکے؟ کیا افغان معاشرے میں ایک باپ اپنی بچی کو مغربی پہناوے اور نین نقش والی گڑیا خرید کر دے گا یا اس کی ترجیح اپنے لڑکے کو کھیلنے کی بندوق یا تلوار خرید کر دینا ہو گی؟
ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ افغانستان کا معاملہ دنیا کے دیگر بحران زدہ علاقوں سے کسی حد تک مختلف ہے۔ یہاں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی بحران کے ساتھ ساتھ سنگین ترین مسئلہ مذہبی انتہا پسندی کا ہے، جو معاشرے کے ہر شعبے کو متاثر کر رہی ہے۔ افغان معاشرے میں انتہا پسندی کی شکار سب سے زیادہ خواتین اور لڑکیاں ہو رہی ہیں۔
کابل لنڈا بازار میں عموماً ہر عمر کے اور ہر صنف کے افراد کی دلچسپی اور ضرورت کی اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ مگر اس بازار کی تصاویر کو غور سے دیکھیں تو آپ کو خواتین اور لڑکیوں کی دلچسپی سے متعلق بہت کم چیزیں دکھائی دیں گی۔ برتن اور فرنیچر تو ہر انسان کے مصرف میں آتے ہیں، اس لیے اسے بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کی چیزیں نہیں کہا جا سکتا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان معاشرے میں لڑکیوں اور عورتوں کو کیا مقام دیا جا رہا ہے؟
ترک صدر روتی ہوئی بچی سے، ’کیا تم شہید ہونا چاہتی ہو؟‘
دوسری بات کابل کے لنڈا بازار میں فروخت ہونے والی اشیاء میں بچوں کے کھلونے بہت کم نظر آ رہے تھے۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ یہ ہر کوئی اپنی اپنی فکری صلاحیتوں کے مطابق سوچ سکتا اور کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے۔ جب میں اس سوال کا جواب تلاش کر رہی تھی تو میرے ذہن میں اُس بچی کا خیال آیا، جس نے کابل سے امریکی انخلا کے آپریشن کے دوران امریکی طیارے میں جنم لیا۔ عام طور سے نو مولود بچوں کی دنیا میں آمد پر ان کے لیے مخصوص کھلونوں اور خوبصورت ملبوسات کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ لیکن جنگ، جارحیت، فرار اور انخلا کے ماحول میں آنکھیں کھولنے والے بچوں کے ننھے ننھے ذہنوں پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہوں گے؟ کیا انہیں کھلونوں سے کھیلنے کی عادت پڑے گی؟ ہر گز نہیں، ان کے لیے زندگی کا معمول جنگی ساز و سامان کے درمیان پروان چڑھنا ہی ہو گا۔
کشور مصطفیٰ