کار صنعت یا بیکار صنعت؟
5 فروری 2009بین الاقوامی سطح پر عراق اور افغانستان کی جنگیں، فلسطین۔اسرائیل تنازعہ اور ایران کے جوہری پروگرام جیسےچیلنجوں سے نمٹنے کے علاوہ امریکی صدر باراک اوباما کے سامنے داخلی سطح پر موٹر ساز صنعت کی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے لگانا بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
موجودہ مالیاتی بحران کے نتیجے میں امریکی شہری اپنے ڈالر سوچ سمجھ کر خرچ کررہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس سال جنوری میں امریکی موٹر کاروں کی مجموعی سیلز میں تقریباً 30 فی صد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
گُزشتہ سال جنوری کے مقابلے میں اس سال کے پہلے مہینے میں امریکہ کی تین بڑی کار کمپنیوں، جنرل موٹرز، فورڈ اور کرائسلر ایل ایل سی کی سیلز میں تقریباً 40 فی صد کی گراوٹ درج کی گئی۔
جنرل موٹرزکی سیلز میں 49، فورڈ میں 40 جبکہ کرائسلر کی سیلز میں 55 فی صد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
جنرل موٹرز اور کرائسلر کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے امریکی انتظامیہ کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر مالی پیکیج سے پہلے ہی نوازا جا چکا ہے۔
جنرل موٹرز کے نائب صدر مارک لانیئو نے موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا: ’’ہم مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے کے لئے وہ سب کچھ کریں گے جو ممکن ہے۔‘‘
اُنہوں نے مزید کہا کہ سیلز میں گراوٹ کے باوجود ایک اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ میں جی ایم کے مجموعی شیئرز میں استحکام ہے۔
گُزشتہ ماہ جاپان کی موٹر کار کمپنی ٹویوٹا نے امریکی موٹر کار کمپنی جنرل موٹرز سے دنیا کی نمبر ایک کار کمپنی ہونے کا اعزاز بھی چھین لیا تھا۔ اس وقت جی ایم کے بدلے اب ٹویوٹا کو دنیا کی سب سے بڑی موٹرکار تیار کرنے والی کمپنی ہونے کا درجہ حاصل ہے۔
امریکی موٹر کار صنعت کے ساتھ ساتھ جرمنی اور جاپان کی موٹر کار صنعتوں کے حال بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔
دوسری طرف بھارت میں صورتحال مختلف نظر آرہی ہے۔ چند برس قبل تک بھارت کو ایک ایسا ملک تصور کیا جاتا تھا، جہاں کاریں عیش و آرام کا سامان تصور کی جاتی تھیں لیکن اس ملک کی مضبوط ہوتی معیشت میں اب موٹر کار زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہیں۔
مشہور بھارتی کمپنی ٹاٹا نے تو ایک ایسی کم قیمت والی کار’نینو‘ بھی تیار کرنے کا تہیہ کررکھا جسے وہاں کم آمدنی والے لوگ بھی بآسانی خرید سکیں گے۔ اس کار کی قیمت محض ایک لاکھ روپے ہوگی۔
بھارت میں گزشتہ برسوں میں موٹر کار صنعت میں ترقی کی رفتار حیران کن رہی ہے۔ 25 ارب ڈالر مالیت کی اس انڈسٹری میں گزشتہ برس 11 لاکھ کاریں اور 70 لاکھ موٹر سائکلیں فروخت کی گئيں۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں موٹر کاروں کی سیلز میں مزید اضافہ اور اس صنعت کی ترقی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں کی سڑکوں کو بہتر بنایا جائے اور شہروں سے دیہات کے زمینی رابطے آرام دہ بنائے جائیں۔