کارنیوال، کولون شہر میں خوشیوں کی بہار
14 فروری 2010معطرفضا، رنگوں کی بہار، ڈھول کی تھاپ، رقص کی مدہوشیاں، سروسنگیت کے جلوے، حسن کی رعنائیاں، قوس قزح کی انگڑائیاں، کانوں میں رس گھولتی شہنائیاں، ثقافتوں کا ملاپ، تہذیبوں کا ظہور، ماضی کی جھلک، حال کا آئینہ اور مسقبل کا انسانی نقشہ، یہ سبھی کچھ کروڑوں انسانوں کا مرکزِ نگاہ ہوتا ہے، اُس جشن میں جسے دنیا کارنیوال کے نام سے جانتی ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ کارنیوال کی روایات کو یورپی لوگوں نے نئی دنیا یعنی امریکی آبادیوں میں متعارف کرایا۔ لیکن اس جشن کے موقع پر ڈھول کی دیوانہ وار تھاپ اور اس پر لہکتے ہوئے سیاہ فام حسیناؤں کے نرم و نازک جسم اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسرتوں کے اس تحفے میں افریقی عوام کی سخاوت بھی شامل ہے۔
مسیحی روایات کے مطابق یہ جشن ایسٹر کے تہوار کی تیاری کے لئے رکھے جانے والے چالیس روزوں سے پہلے کھانے اور خوشیاں منانے کا آخری موقع ہے۔ اسی لئے اس جشن کو مسیحی عقائد کے مطابق دنیا کے کچھ حصوں میں Ash Wednesday سے پہلے منایا جاتا ہے، جو چالیس روزوں کا پہلا دن ہوتا ہے۔
سماجی علوم کے کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا قرونِ وسطٰی میں جنوبی یورپ کے ممالک سے ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ کیتھولک عقائد کے مطابق مسیحی لوگ اپنے منہ چھپا کر تفریح طبع کے لئے جلوس نکالتے تھے۔ لیکن کلیسا اور حکمرانوں کو بعض اوقات ان جلوسوں پر قابو پانے میں دقت پیش آتی تھی اور وہ جلوس کے شرکاء کی ممکنہ غیر اخلاقی حرکتوں سے پریشان رہتے تھے۔ لہٰذا ایک وقت ایسا بھی آیا جب اطالوی شہر وَینس میں کارنیوال کے دوران ماسک پہننا ممنوع قرارپایا۔
بشریاتی علوم کے کئی محققین کے خیال میں افریقہ میں بھی کارنیوال، ابتدائی طور پر مذہبی انداز میں شروع ہوا تھا۔ سیاہ فام آبادی والے ملکوں کے کئی حصوں میں روحوں اور اجداد کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ یورپی لوگوں کی طرح سیاہ فام افریقی بھی اس موقع پرماسک پہنتے تھے لیکن جہاں یورپ میں ماسک پہننے کا مقصد شناخت کوچھپانا تھا، وہاں افریقہ میں اس کا مصرف کسی روح کو زندگی کا روپ دینا تھا۔ افریقی غلاموں کی نسلوں نے ان روایات کو امریکہ اور دوسرے علاقوں میں بھی زندہ رکھا۔
ماہرین کے مطابق مسیحیت سے پہلے بھی کارنیوال کا وجود تھا اورالحادی سماجوں میں بھی اِسے جوش وخروش سے منایا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لفظ کارنیوال Carrus Nalalis سے نکلا ہے، جس کے معنی بحری گاڑی یا جہاز کے ہیں۔ یہ بحری جہازجرمن اورسیلٹک دیوتا کو اُس کی شمالی رہائش گاہ سے اُس مقام پر لے جاتا تھا جہاں سرد موسم کے کھانے تیار کئے جاتے تھے۔
ایسا جہاز قدیم شہربابل میں دیوتا مردوک کے لئے بھی چلتا تھا جب کہ مصر میں زندگی اور روشنی کی دیوی Isis کے لئے بھی اس طرح کے جہاز استعمال کئے جاتے تھے۔ آئسس نامی اس دیوی کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ سال کو شروع کرتی ہے۔ مصر کے قدیم باشندوں کے مطابق کارنیوال کا مطلب سردی کا ختم ہونا اور نئے سال کا آنا تھا۔
اس کارنیوال کا ایک طبقاتی اور سماجی پہلو بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لفظ کارنیوال کو رومن Saturnalia سے لیا گیا، جس کا مطلب کھانے، پینے، نئے ملبوسات پہننے اور بڑی تعداد میں قطاروں کی شکل میں لوگوں کا چلنا پھرنا ہے۔ اس تہوار کے موقع پر سماجی عہدوں اور رتبوں کی ترتیب یکسر تبدیل ہوجاتی تھی اور طبقہ اعلٰی کے لوگ غلاموں کی خدمت پر مامور ہو جاتے تھے، کسی عام شہری کو وقتی طور پر بادشاہ بنا دیا جاتا تھا اور مرد عورتوں کا لباس زیب تن کرتے تھے۔
اگرغور سے دیکھا جائے تو یہ سارے پہلو آج کے کارنیوال میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ کارنیوال کئی ثقافتوں اور تہذیبوں کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
برازیل کا بہت زیادہ آبادی والا شہر ریو ڈی جینیرو کارنیوال کے دوران ثقافتی یلغارکی زد میں نظر آتا ہے۔ اس موقع پر شہرکا Sambodromo اسٹیڈیم مرکزِ نگاہ ہوتا ہے جہاں مختلف رنگوں سے سجائی گئی کشتیوں کا ایک کارواں ہزاروں رقاصاؤں، سنگیت کاروں اور گلوکاروں کے ساتھ لاکھوں شائقین کی تالیوں کی گونج میں پریڈ کرتا ہے۔ اس پریڈ کے شرکاء مختلف ثقافتی لباس زیب تن کرتے ہیں جب کہ کچھ منچلے مادر پدرآزادی کا نعرہ لگا کر قدرتی لباس میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔ اس پریڈ کو دنیا بھر میں کروڑوں افراد ٹیلیوژن اسکرینوں پر دیکھتے ہیں۔
سلواڈور دا باہیا، جو سولہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک دارالحکومت رہا تھا، برازیل کا ثقافتی مرکز کہلاتا ہے۔ یہ شہر اسٹریٹ کارنیوال کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس موقع پر ملک کے طول وعرض سے آئے ہوئے فنکار کئی گھنٹے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سلواڈور دا باہیا کے کارنیوال کو دنیا کی سب سے بڑی عوامی تقریب کہا جاتا ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ تک افراد شہر کی سڑکوں اور شاہراؤں پر جمع ہو کر دیوانہ وار گاتے اور رقص کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ظاہر ہے کہ جام نوشی بھی بہت زیادہ کی جاتی ہے، جو بےخودی اور مدہوشی پر منتج ہوتی ہے۔
جرمنی میں کارنیوال کا سب سے بڑا جلوس دریائے رائن کے کنارے واقع شہر کولون میں نکالا جاتا ہے۔ اس پریڈ کو دیکھنے کے لئے لاکھوں افراد دنیا کے مختلف حصوں سے کولون آتے ہیں۔ یہ جلوس کئی کلومیٹر طویل ہوتا ہے جبکہ اندرون شہر میں جن راستوں سے وہ گزرتا ہے، ان کی مجموعی لمبائی ساڑھے چھ کلومیڑ تک ہوتی ہے۔ کارنیوال کا یہ جلوس، جس کے شرکاء ہزار ہا اور دیکھنے والے ایک ملین سے زائد ہوتے ہیں، یہ فاصلہ تقریبا تین گھنٹے میں طے کرتا ہے۔
پریڈ کی قیادت تین اہم شخصیات کرتی ہیں۔ یہ تین شخصیات ہیں شہزادہ، کسان اور کنیز۔
ان تینوں کو عارضی طور پر منتخب کیا جاتا ہے، جس کے لئے کارنیوال کی کمیٹیاں بہت پہلے سے کام کرتی رہتی ہیں۔
اس دفعہ بون کے کارنیوال میں ایک چالیس سالہ ایرانی مسلمان امیر شفاعی کو شہزادے کے طور پر منتخب کیا گیا، جو تین بچوں کے باپ ہیں۔ شفاعی دس سال کی عمر میں ایران سے جرمنی آئے تھے اور تب سے وہ کارنیوال کے جلوس میں شہزادہ بننے کا خواب دیکھتے رہے تھے، جو اس سال پورا ہوگیا ہے۔ وہ بے انتہا خوش ہیں۔
کارنیوال کی پریڈ میں لوگوں کو جگہ حاصل کرنے کے لئے پہلے آیئے اور پہلے پایئے کے اصول کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ تاہم، بچوں کے لئے پہلی قطار مختص ہوتی ہے۔ پریڈ کے شرکاء سے امید کی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کریں بلکہ ان بچوں کی بھی جن کے والدین ساتھ نہ ہوں۔
دیر سے آنے کے بعد دھکا دے کر آگے نکلنے کے عمل کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ پریڈ کے دوران لوگوں پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں، اور رنگ برنگے چاکلیٹس سمیت بہت سے چھوٹے تحفے بھی پھینکے جاتے ہیں۔
ڈُسلڈورف، برلن، فرینکفرٹ، ہیمبرگ اور دوسرے شہروں میں بھی کارنیوال کی تقریبات زور شور سے منائی جاتی ہیں۔ اس موقع پر شراب خانوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکان کی چاندی ہوتی ہے، جن کا کاروبار کئی دنوں تک عروج پر ہوتا ہے۔ اس دوران پبلک ٹرانسپورٹ بھی عوام سے کچھا کھچ بھری رہتی ہے۔ کئی شہروں میں مرکزی مقامات پر لوگ دیوانہ وار رقص کرتے ہیں اور بلند آواز میں گیت گاتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ جرمنی کے شہروں اور گلیوں میں رنگوں کا آسمان اتر آیا ہے!
پورے جرمنی میں کارنیوال کی تقریبات کے انتظام پر ہر سال کئی سو ملین یورو خرچ کئے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف کولون میں کارنیوال کے مرکزی جلوس پر گزشتہ سال مجموعی طور2.5 ملین یورو خرچ کئے گئے تھے۔ ان رقوم سے ایک سو چالیس ٹن مٹھائیاں، 7 لاکھ چاکلیٹ کے پیکٹ ، اور تین لاکھ گلدستوں سمیت ہزاروں دیگر اشیاء کارنیوال کی تیاری کے لئے خریدی گئی تھیں۔ اندازہ ہے کہ اس سال ِان اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا۔
جرمنی کے علاوہ امریکہ، فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اوراسپین اورسمیت دنیا کے اور کئی ممالک میں بھی کارنیوال کی بڑی بڑی تقریبات اور پریڈز ہوتی ہیں۔ بھارت کی ریاست کیرالہ اور سیاحتی مرکز گوآ میں کارنیوال کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
کارنیوال کے جلوسوں میں عموما لوگ جنوں، بھوتوں، پریوں، دیویوں، دیوتاؤں سمیت کئی اور مخلوفات کے روپ دھارتے ہیں لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے اس موقع پر سیاسی شخصیات خصوصا امریکہ اوربڑے مغربی ممالک کے سربراہان حکومت کے بھی ماسک پہنے جارہے ہیں۔
اس سال برازیل میں کارنیوال کے حوالے سے اُس وقت ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا جب ریو ڈی جینیرو کے کارنیوال کے لئے ایک سات سالہ لڑکی Julia Lira کو ملکہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے بچوں کے استحصال سے تعبیر کیا۔ ان کی حجت یہ ہے کہ ملکہ کا کردار اِس کارنیوال میں ایک شہوانی تصور اجاگر کرتا ہے اور یہ کردار کسی سات سالہ بچی کو دینا غیر انسانی ہے۔
کارنیوال کے منتظمین نے انسانی حقوق کی تنظیموں پر یہ واضح کیا کہ اس کم سن ملکہ کو ایسا لباس نہیں پہنایا جائے گا، جس سے کوئی شہوانی تصور اجاگر ہو لیکن اس تنازعہ نے کارنیوال کی تقریبات پر کوئی اثر نہیں ڈالا اور پوری دنیا میں اس جشن کی بہاریں اپنے جوبن پر نظرآ تیں ہیں۔ پیر کو اس جشن کی تقریبات اختتام پذیر ہوں گی لیکن جاتے جاتے یہ ہمارے دلوں اور دماغوں میں حسین یادیں چھوڑ جائیں گی، جن کے نقوش انمٹ ہوں گے۔
رپورٹ عبدالستار
ادارت مقبول ملک