’کام کرو، آخری سانس تک‘، محمد یونس 75 برس کے ہو گئے
28 جون 2015محمد یونس 28 جون 1940ء کو چٹاگانگ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی سالگرہ پر جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’انسانوں کو اپنی آخری سانس تک سرگرم رہنا چاہیے۔ اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ جائیں۔ ریٹائرمنٹ کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ اُن کے خیال میں ’ریٹائرمنٹ‘ کے لفظ کو ہی ریٹائر کر دینا چاہیے:’’زندگی بھر کام کرنے کا اصول صرف میرے لیے نہیں ہے بلکہ ہر شخص کو خود پر اس کا اطلاق کرنا چاہیے۔‘‘
محمد یونس اور اُن کے قائم کردہ گرامین بینک کو 2006ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ گرامین بینک 1983ء میں قائم کیا گیا تھا اور تب سے غربت کے شکار لوگوں، خصوصاً خواتین کو چھوٹی رقوم کے قرضے فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔ شروع شروع میں چھوٹے قرضوں کے اس نظام کو اس بناء پر بے حد سراہا گیا تھا کہ اس کی وجہ سے پیسہ اُن لوگوں تک بھی پہنچ رہا ہے، جن کی عام طور پر کاروباری قرضوں تک رسائی نہیں ہوتی۔ بعد ازاں یہ نظام اس وجہ سے تنقید کی زَد میں آنا شروع ہو گیا کہ اس میں قرضے لیتے رہنے کے سلسلے میں لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور بہت ہی زیادہ شرح سے منافع لیا جاتا ہے۔
مارچ 2011ء میں بنگلہ دیشی حکومت نے یونس کو اس بینک کی سربراہی سے الگ کر دیا تھا۔ اس پوزیشن سے اُن کے اخراج کی وجہ ریٹائرمنٹ کی عمر پر کھڑا ہو جانے والا تنازعہ بنا تھا۔ بنگلہ دیش میں ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ برس ہے جبکہ محمد یونس تب اکہتر برس کے ہو جانے کے باوجود بینک کی قیادت کر رہے تھے۔
2010ء میں ناروے کی ایک دستاویزی فلم میں گرامین بینک کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا اور محمد یونس پر الزام لگایا گیا تھا کہ ناروے کی سرکاری ترقیاتی ایجنسی اور دیگر ڈونرز نے جو ایک سو ملین ڈالر گرامین بینک کو دیے تھے، وہ طے شُدہ شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1996ء میں گرامین کے ایک ساتھی ادارے گرامین کلیان کو منتقل کر دیے گئے تھے۔
محمد یونس نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور حکومتی سطح پر کی جانے والی تحقیقات میں بھی فنڈز کے انتظام و انصرام میں کسی قسم کی بد عنوانی نہیں پائی گئی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ فنڈز کی اس طرح سے منتقلی خود گرامین بینک کے قواعد و ضوابط کے بھی خلاف تھی۔
محمد یونس نے چھوٹے قرضوں کا جو نظام متعارف کروایا، وہ بعد ازاں بہت سے دیگر ملکوں بالخصوص یوگنڈا، ہیٹی، بھارت، کولمبو، برازیل اور تیونس نے بھی اپنے ہاں رائج کیا۔ محمد یونس کے مطابق قرضے ’انسانی حق‘ ہیں جبکہ اس نظام پر عمومی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ لوگوں کی غربت کے خاتمے میں اس نظام کا کردار صفر ہے۔
محمد یونس نے ایک بار کہا تھا، ایک وقت آئے گا کہ غریبی عجائب گھر کی زینت بن چکی ہو گی۔ اپنی پچھترویں سالگرہ پر اس حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ وہ اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں:’’2050ء کے بعد کوئی شخص غریب نہیں رہے گا، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
محمد یونس کہتے ہیں کہ لوگوں کو ملازمتیں اختیار کرنے کی بجائے کوئی کاروبار شروع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے:’’تمام انسانوں کو کاروباری ہونا چاہیے۔ مَیں بنگلہ دیش کے اور باقی دنیا کے بھی نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ ملازمیت تلاش کرنے کی بجائے ملازمتیں دینے والے بنو۔‘‘