کانگریس میں ریپبلکنز کی جیت سے اسرائیل کی توقعات
5 نومبر 2010امریکہ میں کانگریس کے حالیہ انتخابات میں ڈیمو کریٹس کی شکست اور ریپبلکنز کی کامیابی پر امریکہ کے اسرائیل نواز حلقوں کی طرف سے خوشیاں منائی گئیں۔ امریکہ میں ایک نئی سیاسی صورتحال سامنے آنے کے بعد سے ماہرین اور مبصرین اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ کیا ریپبلکنز امریکہ کی تنازعہء مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی میں کوئی نئی حکمت عملی اختیار کریں گے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس ویک اینڈ پر امریکہ کا دورہ کریں گے۔ حالیہ کانگریس انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کی کامیابی کے بعد اسرائیلی رہنما کا امریکہ کا یہ پہلا دورہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے غالباً نیتن یاہو کو یہ امید ہو سکتی ہے کہ امریکہ کی طرف سے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے حل کے لئے جمود کے شکار امن مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں اسرائیل پر دباؤ میں کمی آئے گی۔ تاہم اس کے امکانات نظر نہیں آتے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ریپبلکنز صدر باراک اوباما کے ایماء پر دو ستمبر کو مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے سلسلے میں شروع ہونے والی مہم میں کوئی ڈرامائی تبدیلی نہیں لائیں گے۔
یہ مذاکرات چند ہفتوں کے بعد ہی اُس وقت بند ہو گئے جب فلسطینی صدر محمود عباس نے مذاکرات کی میز کی طرف لوٹنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ جب تک غرب اُردن کے مقبوضہ علاقے میں یہودی آباد کاری اور تعمیراتی کاموں پر لگی عارضی بندش کی میعاد بڑھائی نہیں جاتی، تب تک بات چیت کا سلسلہ بند رہے گا۔
واشنگٹن انتظامیہ نے نیتن یاہو حکومت پر خاصا دباؤ ڈالا کہ وہ مغربی اردن میں اُس متنازعہ تعمیراتی منصوبے کو دوبارہ بند کرے، جو اسرائیلی عوام کے ساتھ ساتھ تل ابیب حکومت کے سخت گیر موقف کے حامل حلقوں میں بھی غیر مقبول ہے۔ تاہم امریکی دباؤ کے خلاف اسرائیلی وزیر اعظم اب تک مدافعت کرتے رہے ہیں۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو امریکی کانگریس کے الیکشن کے منتظر اور ریپبلکنز کی فتح کے متمنی تھے۔ اس لئے کہ ریپبلکن پارٹی کو عام طور سے ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں اسرائیل کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھنے والی اور تل ابیب حکومت کی پالیسیوں کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق نیتن یاہو کی اُمیدیں بر آنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ امریکی سیاست میں کانگریس کا کردار نسبتاً کم اہم ہوتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی سیاست کے بارے میں قائم ایک معروف امریکی تھنک ٹینک Begin-Sadat Centre for Strategic Studies سے منسلک ایک سینئر ریسرچر جوناتھن رائن ہولڈ کا کہنا ہے کہ امریکی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی سازی کی حکمت عملی میں کانگریس کا کچھ خاص عمل دخل نہیں ہوتا۔ کانگریس زیادہ سے زیادہ صدر پر کسی معاملے میں دباؤ ڈال سکتی ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد اوباما کو ایک منقسم کانگریس کا سامنا ضرور ہے تاہم وہ پہلے ڈیمو کریٹ صدر نہیں ہوں گے جو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں کو ریپبلکنز کی طاقتور موجودگی میں آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
دریں اثناء امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے بعد گزشتہ روز فلسطینیوں کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار صائب عُریقات نے واشنگٹن میں امریکہ کے مشرق وسطیٰ سے متعلقہ امور کے خصوصی مندوب جارج مچل سے ملاقات کی۔ اس موقع پر مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ صائب عُریقات نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کو اس بارے میں حکمت عملی وضع کرنے کے لئے کچھ مہلت دینا چاہتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک