1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کتابوں کا عالمی دن ‘پاکستانی میں کتب بینی کی صورتحال

تنویر شہزاد، لاہور23 اپریل 2014

پاکستان میں کتابوں کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ملک میں آبادی کے بڑھنے اور خواندگی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے کتب بینی کے رجحان میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن اس اضافے کی رفتار بہت سست ہے۔

https://p.dw.com/p/1BmYU
تصویر: Reuters

پاکستان میں سنگ میل پبلشزز کے افضال احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے لیے یہ بات خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے بڑھتے ہوئے نفوذ کے باوجود کتب بینی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رھا ہے۔’’پچھلے دس سالوں میں بہت سے نئے اشاعتی ادارے وجود میں آ چکے ہیں، کتابوں کے میگا سٹورز بھی کھل رہے ہیں، کتابوں کے میلوں میں لوگوں کی بھرپور شمولیت کتابوں کی فروخت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے، کتابوں کی آن لائن فروخت بھی جاری ہے، ای بکس کی مارکیٹ اگرچہ ابھی بہت کم ہے لیکن اس پر بھی کام ہونا شروع ہوچکا ہے‘‘۔

افضال احمد کے بقول پاکستان کی کتابوں کی مارکیٹ میں امپورٹد بکس کا شیئر تیزی سے بڑھتا جا تھا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں عام طور پر ہلکے پھلکے موضوعات پرلکھی گئی کتابیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں۔ قارئین کا ایک بڑا حلقہ تاریخی یا معلومات عامہ کی کتابوں کو بھی پڑھنا پسند کرتا ہے۔ ریٹائرڈ ارمی افسران، سینیئر سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی سوانح عمریاں بھی پڑھی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی مقبول ترین کتابوں کے تراجم بھی پڑھے جا رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومت کو نئے لکھنے والوں کو مراعات دینی چاہیں۔

جمہوری پبلیکیشنز کے سربراہ فرخ سہیل گوئیندی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کتب بینی کے رجحان میں اضافے کے باوجود پاکستان میں کتابوں کی صنعت مسائل کا شکار ہے۔ ان کے بقول ان مسائل کے شکار لوگوں میں پہلے نمبر پر کتاب پڑھنے والا قاری ہے، جسے فیس ویلیو پر کتاب خریدنا پڑھتی ہے۔ دوسرے نمبر پر کتاب لکھنے والا ہے جسے اس کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا اور تیسرے نمبر پر پبلشرز ہیں جنہیں ایسے آڑھتیوں نما کتب فروشوں کا سامنا ہے جو بغیر کسی سرمایہ کاری کے پچاس ساٹھ فی صد منافع لے جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد کم ہے۔

Buchcover Der Barfußprophet von Pilion

ان کے بقول حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو عمدہ کتابیں نہیں مل رہیں اور بہت سے لوگ فرقہ وارانہ، موضوعات، توہم پرستی یا پھر شعر و شاعری کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ سہیل گوئیندی نے مزید بتایا کہ ای بکس کا رجحان ابھی کم ہے صرف محقق اور پروفیشنل حضرات اپنی ضرورت کی غیر ملکی کتابیں نیٹ سے لے رہے ہیں۔ گوئندی کی رائے میں پاکستان میں کتب بینی کے تیزی سے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کتابوں کی صنعت کی سرپرستی کرے، لائبریری کلچر کو فروغ دے، نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو سائنس بورڈ جیسے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائے۔

معروف محقق ڈاکٹر مبارک علی نے بتایا کہ پاکستان میں لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن یہاں سنجیدہ کتابوں کا بہت فقدان ہے۔ پاکستانی تناظر میں فلسفے، تاریخ، تفسیات یا سوشیالوگی پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا حل بین الاقوامی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا گیا تھا لیکن اب ترجمعے بھی میعاری نہیں رہے۔ ان کے بقول پاکستان میں کتابوں کا فروغ حکومتوں کی ترجیح نہیں رہا ہے’’ میں ساٹھ سے زائد کتابیں لکھنے کے بعد آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے‘‘۔

معروف شاعر امجد اسلام امجد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں جو لوگ کتابیں خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، انہیں ہیری پوٹر پڑھنا پسند ہے اور انہیں الف لیلٰی کی کہانیوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔’’ پچانوے فی صد لکھاریوں کو رائلٹی نہیں ملتی اور ان میں سے بھی اسی فی صد اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں‘‘۔ امجد اسلام امجد کے بقول کتب بینی کے فروغ کے لیے آٹھویں تک ذریعہ تعلیم اردو کرنا ہوگا اور بچوں کو اردو کتابوں کی طرف لانا ہو گا۔

آل پاکستان لائبریرین ایسوسی ایشن کے سربراہ اور پنجاب یونیورسٹی کے چیف لائبریرین چوہدری محمد حنیف نے بتایا کے کتب بینی کے رجحان میں اضافے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کے ممبران کی تعداد بتیس ہزار تک پہنچ گئی ہے ’’ہمارے پاس چھ لاکھ کتابیں ہیں اور ہر سال ہمیں طلبہ اور اساتذہ کے مطالبےپرپندرہ ہزار کتابیں خریدنا پڑھتی ہیں‘‘۔