'کتے کو زہر کیا کیسے دوں‘
14 مارچ 2021تکلیف پہنچانا، تنگ کرنا، پتھر مارنا، کتوں کے گلے میں رسی باندھ کر بھگانا، کتوں کی لڑائی کرانا۔ دنیا کے کسی بھی باشعورمعاشرے میں آپ کو جانوروں کے ساتھ اس طرح کا بہیمانہ رویہ شاید ہی دیکھنے کو ملے۔
دنیا میں جانوروں کے حقوق پر جہاں بہت زیادہ قوانین موجود ہیں اور ان پر بڑے بڑے ایوانوں میں بات کی جا رہی ہے وہیں ہر سال پاکستان میں ہزاروں کتوں کو زہر دے کر یا پھر گولی مار کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ اور چونکہ پاکستان کے آئین میں جانوروں کے حقوق کی مناسبت سے کوئی جامع اور ٹھوس قانون موجود نہیں ہے لہذا کتوں کو مارنے کی اس مہم میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں ہر سال اس بربریت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، وہیں ہر سال جانوروں کے حقوق و تحفظ اور ان سے اچھا رویہ رکھنے کے لیے مختلف تنظیمیں پاکستان میں آواز اٹھاتی ہیں لیکن قانون نہ ہونے کہ باعث ان کی کوئی بھی سنوائی نہیں ہوتی۔ پچھلے چند سالوں میں جانوروں کے حقوق پر بات کرنے والے بہت سے ایکٹیوسٹس نے پاکستان میں کتا مار مہم کے خلاف عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹائے لیکن ان کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا گیا کہ اس طرح کے غیر ضروری کیسزعدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔
مزید یہ کے جانوروں کو مارنے یا ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرنے والوں کو بھی آج تک کوئی سزا نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے ان جانوروں پر ظلم کو ظلم کی طرح دیکھا ہی نہیں جاتا۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ قانون جانوروں کے تحفظ اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ تھوڑی تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ''ظالمانہ سلوک سے جانوروں کی ٹحفظ کا ایکٹ 1860‘‘ پاکستان میں آج بھی لاگو ہے۔ یہ قانون نہ صرف جانوروں پر ظلم بلکہ ان کی غیر قانونی خرید و فروخت کے خلاف بھی بات کرتا ہے۔ ایکٹ کے مطابق کوئی بھی شخص جانور کو تکلیف پہنچائے یا تشدد کرتے ہوئے مارے تو اسے 200 روپے کا جرمانہ یا 6 مہینے یا اس سے زیادہ کی قید ہوسکتی ہے۔
قانون کی موجودہ شق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو بحال کرنے اور جرمانہ بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کل کے دور میں 200 روپے جرمانہ کوئی بھی آسانی سے ادا کر سکتا ہے۔ اگر کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے قوانین پر نظر ڈالیں تو آئین کے قانون کے برعکس اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کتوں کو شاٹ گن سے مارنے کی اجازت ہے۔
سوال یہاں یہ بھی اٹھتا ہے کے پاکستان میں آج بھی 1860ء کا انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہی کیوں رائج ہے جبکہ دوسری جانب بھارت نے اس قانون میں ترمیم کر کے 2001ء میں ایک ایسا قانون بنایا جس کے تحت زمرہ بندی کر کے کتوں کو ٹیکے لگانے کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی حکومتی سطح پر جانوروں کی صحت کے لیے ہسپتالوں کا قیام بھی کیا گیا۔
2016/ 17ء میں کراچی میں ایک کتا مار مہم شروع ہوئی جس میں کراچی کی میونسپل انتظامیہ نے 3000 سے زائد آوارہ کتوں کو جان سے مارا۔ جہاں صوبائی حکومت کی یہ رٹ ہے کہ ان آوارہ کتوں کے کاٹنے سے شہر میں ہزاروں افراد متاثر ہوتے ہیں وہاں اس بارے میں کہیں ایسے کسی اقدامات کے بارے میں بات نہیں کی جاتی کے آوارہ کتوں کو اگر ٹیکے لگا دیے جائیں تو یہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔
اس کی مثال ہمیں ترکی میں بھی ملتی ہے جہاں کتوں کو ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور ان کو شیلٹر ہومز میں رکھا جاتا ہے۔ اکثر افراد سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ کتا تو ویسے ہی نجس جانور ہے تو غالبا اسکو مارنا جائز ہے۔
جب تک پاکستان میں لوگوں کی سوچ تبدیل نہیں ہوگی تب تک یہاں کتوں اور گدھوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ عام رہے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جان سے مار ڈالنے کی ظالمانہ سوچ کی ہر سطح پر مذمت کی جائے۔