کراچی میں تشدد کی لہر برقرار
3 فروری 2010گزشتہ چار دن سے تشدد کی لپیٹ میں آئے اس شہرمیں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سنگین صورتِ حال کے پیش نظر رینجرز کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
کراچی میں فرقہ ورانہ، لسانی اور سیاسی تشدد کی ایک تاریخ رہی ہے، جس میں ماضی میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ گزشتہ چند سالوں میں انتہا پسندی کی جس لہر نے صوبہ سرحد اور ملک کے دیگر حصوں کو متاثر کیا وہ لہر کراچی کو اس طرح تو اپنی لپیٹ میں نہ لے سکی لیکن پچھلے چند ماہ سے شہر میں لسانی اور سیاسی کشیدگی وقفے وقفے سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔
پچھلے چار دنوں کا تشدد اس بات کا مظہر ہے کہ ملک کا اقتصادی مرکز ایک بار پھر عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ کئی تجزیہ نگار موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دارایم کیوایم اورعوامی نیشنل پارٹی کو ٹھہراتے ہیں۔
جب شہر کی صورتِ حال کے حوالے سے ڈوئچے ویلے نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن رضا ہارون سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا: ''فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ یہ ٹارگٹ کلنگ ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کراچی میں جو کرمنلز، گینگ مافیا، ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا اور پولیٹیکل ڈیپیٹڈ ایلیمنٹس جو ہیں، جو کہ وہ فلائٹ ہی مس کرچکے ہیں جو کہ الیکش کے تھرو انہیں ایوانوں تک پہنچاتی ہے اور وہاں سے وہ اپنے لوگوں کی خدمت کرسکیں، یہ مل کر چاہتے ہیں کہ کراچی کو ڈی سٹیبلائز کیا جائے کراچی میں پولیٹیکل پارٹیز کو آپس میں لڑایا جائے اور پھر اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب کراچی ڈی سٹیبلائز ہوگا تو پورا صوبہ ڈی سٹیبلائز ہوگا جو ملک کا معاشی انجن ہے، پورے ملک کو نقصان پہنچے گا تو یہ ملک کے دشمن ہیں''
ملک کے مختلف حلقوں کا ماننا ہے کہ کراچی کے موجودہ ہنگاموں کے پیچھے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے مابین پائی جانے والی دیرینہ کشیدگی کا ہاتھ ہے۔ اے این پی کے سر کردہ لیڈر رانا گل آفریدی کی ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر موجودہ صورتحال سے فائدہ کن عناصر کو پہنچ سکتا ہے، تو انہوں نے کہا:''متحدہ قومی موومنٹ سندھ کی حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے، ایم کیو ایم کراچی میں اپنی بادشاہت قائم کرنا چاہتی ہے کہ کراچی میں جو ہو ان کی مرضی کے مطابق ہو کراچی میں اگر کسی نے سیاست کرنی ہے تو ان کی مرضی کے مطابق کرے اگر کراچی میں کسی کو رہنا بھی ہے تو ان کی مرضی کے مطابق رہے، حکمران پیپلز پارٹی مصلحتوں کا شکار ہوچکی ہے، جہاں پشتون نظر آتا ہے اسے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے''
کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں دونوں کی نمائندہ جماعتوں کے ترجمانوں کا تاہم ایک بیان مشترک تھا اور وہ یہ کہ کراچی کے فسادات کو لسانی یا فرقہ ورانہ رنگ دینا غلط طرز عمل ہے۔ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت اس وقت مصلحت پسندی سے کام لے رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کا کہنا کچھ بھی ہو، کراچی میں عام شہری امن اور بھائی چارے کی فضا چاہتا ہے اور اسی لئے بہت سے شہری حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کواس مقصد کے حصول کے لئے مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
رپورٹ : کشور مصطفیٰ
ادارت :مقبول ملک