کراچی میں تشدد کی نئی لہر، چالیس افراد ہلاک
17 جون 2011شہر میں پرتشدد واقعات کا آغاز شہر کے مغربی علاقے اورنگی ٹاؤن میں عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان فائرنگ سے ہوا اور دیکھتے دیکھتے ان واقعات نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنماؤں کے تلخ بیانات نے صورتحال کو مزید سنگین بنادیا۔ اس دوران یوں لگتا تھا کہ کراچی شہر میں کوئی قانون نہیں ہے۔
دونوں جماعتوں کے درمیان شہر کے مختلف علاقوں میں فائرنگ اور ایک دوسرے کی املاک کو نذرآتش کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں نے اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے بعد ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کی تبدیلی پر سکیورٹی فورسز میں ناراضی پائی جاتی ہے یوں حکومت اور سکیورٹی اداروں کی عدم توجہی کے باعث ایک بار پھر چالیس افراد مارے گئے۔
ماضی میں ہرکچھہ مہینے بعد حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان فسادات میں چالیس پچاس افراد کی ہلاکت کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی آکر بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن خود ان کی جماعت کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ان کی کراچی آمد اور متعلقہ فریقوں سے ملاقات پر تحفظات رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے حقیقی اور ٹھوس اقدامات کے بجائے صرف سڑکوں پر فلیگ مارچ اور گاڑیوں کی تلاشی لیکر سخت اقدامات کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کراچی شہر کا امن برباد کرنے والوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں رہتے ہیں کیونکہ جرائم پیشہ عناصر کو شہر میں اثرورسوخ رکھنے والی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی لاقانونیت اور قتل غارت گری کی طویل تاریخ ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ اصل جھگڑا متحدہ قومی موومنٹ اور اے این پی کے درمیان ہے۔ دونوں جماعتوں پر کراچی شہر پر کنٹرول حاصل کرنے، قیمتی اراضی پر قبضے اور بھتہ لینے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔
مگر دونوں ہی جماعتیں ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت ضرور کرتی ہیں کہ بدامنی کے واقعات میں شرپسند ملوث ہیں مگر پہلی مرتبہ دونوں جماعتوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ شرپسند عناصر قبضہ مافیا کے کارندے سیاسی پناہ کے لیے سیاسی جماعتوں میں شامل ہوگئے ہیں۔ لہذا ان عناصر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دونوں جماعتوں کی سیاسی منافقت کا اندازہ ان کے بیانات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ چار روز تک شہر میں قتل و غارت گری کے بعد اے این پی ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے شہر میں ایک دوسرے کے خلاف دل آزار وال چاکنگ اور پارٹی پرچم اتارنے کے کام کا آغاز کردیا ہے مگر ان کے حلقوں کے بقول یہ صرف عارضی اقدام ہے۔ اس مرتبہ جھگڑا دونوں جماعتوں کے درمیان بلدیاتی انتخابات اور آئندہ انتخابات میں زیادہ نشتیں حاصل کرنے اور علاقوں پر قبضہ کرکے ایک دوسرے پر طاقت کا مظاہرہ تھا مگر اس جھگڑے میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر سپریم کورٹ بھی خاموش ہے۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: عاطف بلوچ