کراچی میں سکیورٹی فورسز کے مزید دستے تعینات
9 جولائی 2011جمعے کے روز متعدد علاقوں میں مسلح افراد نے مختلف گھروں پر فائرنگ کی اور بعض مکانات کو دستی بموں سے بھی نشانہ بنایا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے جمعے کے روز سوگ کے اعلان کے بعد ملک کا معاشی مرکز کہلانے والے شہر کراچی کے متعدد علاقوں میں کاروبار زندگی معطل رہا جبکہ دوسری جانب ٹرانسپورٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مقامی میڈیا کے مطابق صرف جمعے کے روز مختلف مقامات پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں 23 سے زائد افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ رپورٹوں کے مطابق متعدد مقامات پر شہریوں کو اشیائے خورد و نوش کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گزشتہ چھ ماہ میں کراچی میں سیاسی بنیادوں پر جاری ہنگاموں میں مسلسل تیزی دیکھی گئی ہے۔ کراچی میں مضبوط حیثیت کی حامل سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور وہاں پشتونوں کی ایک بڑی اکثریت کی نمائندہ عوامی نیشنل پارٹی ان ہنگاموں کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
پاکستان میں متعین امریکی سفیر نے کراچی کے حالات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کا جنوبی بندرگاہی شہر کراچی افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج تک سامان رسد کی فراہمی کے لیے کلیدی کردار کا حامل ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اپنے ایک تازہ بیان میں ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’منگل کے روز سے اب تک کراچی میں کم از کم 91 افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے شہر کے مختلف مقامات پر تخریب کاروں کے خلاف کارروائیاں کر کے 89 مسلح افراد کو حراست میں لیا ہے۔ ہم نے کراچی میں امن و امان کے قیام کے لیے وہاں مزید ایک ہزار نیم فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔ ‘
کراچی میں پرتشدد صورتحال کے تناظر میں صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے خبر رساں ادارے AFP کو بتایا کہ حکومت نے سکیورٹی فورسز کو احکامات دیے ہیں کہ وہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک