کراچی: ٹارگٹ کلنگ کے نئے طریقے
30 اپریل 2015ٹارگٹ کلنگ کی تازہ ترین وارداتوں کا آغاز رواں ماہ کراچی کے ایک تھانے دار کے قتل سے ہوا۔ اور پھر اسی روز امریکی خاتون شہری ڈیبرا لوبو پر بھی فائرنگ کی گئی۔ خوش قسمتی سے ڈیبرا کی جان بچ گئی۔ پھر دہشت گردوں نے سماجی کارکن سبین محمود کو رات کے اندھیرے میں نشانہ بنایا اور جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر سید وحید الرحمان کو بھی گھر سے یونیورسٹی جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔
ان چاروں وارداتوں میں بظاہر تو کوئی مماثلت نظر نہیں آتی لیکن تفتیش کاروں کے مطابق تمام وارداتوں میں دہشت گردوں کا طریقہ کار غیر معمولی حد تک ایک ہے۔ دہشتگردوں نے ہر واردات میں سی جی 125 موٹر سائیکل اور نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا ہے۔
تفتیش کاروں کے مطابق ہدف کو گھر سے نکلتے ہوئے یا گھر لوٹتے ہوئے ایک مخصوص قسم کے ہتھیار سے پانچ گولیاں مارکر قتل کرنا بالکل ایک نیا رجحان ہے، جبکہ چار افراد پر اس وقت گولیاں چلائیں گئیں جب وہ گاڑی چلا رہے تھے کیونکہ گاڑی چلاتا ہوا شخص حملے کی صورت میں کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں کرسکتا۔ اس سے قبل دہشت گرد ہدف بنائے گئے شخص کو سر میں گولی مارا کرتے تھے۔
کراچی میں اچانک دوبارہ زور پکڑتی وارداتوں کا اعلٰی ترین سطح پر نوٹس لیا گیا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف گزشتہ روز مختصر دورے پر کراچی آئے اور انہوں نے بھی دہشت گردی کی نئی اور ایک ہی انداز میں ہونے والی وارداتوں کی جانب نشاندہی کی۔ آرمی چیف نے رینجرز کو ایک ہی انداز میں ہونے والی وارداتوں کے پیچھے کار فرماں عوامل کو بے نقاب کرنے کی ہدایت بھی کی۔
تجزیہ کاروں کی آراء میں پولیس کی ٹارگٹ کلنگ تو آپریشن کے دوران بھی جاری تھی لہذا حکومتی حلقوں میں تھانیدار کے قتل پر تو زیادہ بے چینی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن سماجی کارکن سبین محمود کا قتل یقیناٰ اس وقت ہوا جب وہ بلوچستان کے حالات پر اپنے کیفے میں سیمینار منعقد کرنے کے بعد والدہ کے ہمراہ گھر واپس جارہی تھیں۔ جس کے باعث سوشل میڈیا پر شہریوں نے ملکی سلامتی کے ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ لیکن جلد ہی ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے قتل کی مذمت اور تحقیقات میں معاون نے صورت حال واضح کردی۔
سبین محمود کے قتل کی تحیقیقات کرنے والے ڈی آئی جی ڈاکٹر جمیل نے ڈوچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سبین محمود کا قتل ایک انتہائی پیچیدہ واردات ہے جس کی لیے دہشتگردوں نے مکمل منصوبہ بندی کی ہے۔ واقعہ میں سبین کی والدہ مہناز بھی گولیاں لگنے کے باعث زخمی ہوئیں ہیں جس کے تفتیش کار تاحال ان سے ملاقات نہیں کرسکے ہیں۔ البتٰہ ڈرائیور غلام عباس کے بیان سے کوئی مدد نہیں ملی۔ فرانزک تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سبین کے قتل میں استعمال ہونے والا ہتھیار اس سے قبل کسی واردات میں استعمال نہیں ہوا۔ جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی نئے انتہا پسند گروہ کی کارروائی ہوسکتی ہے۔
وائس چانسلر ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں سندھ کی موجودہ حکومت ناکام ترین ہے۔ اگر گزشتہ برس ستمبر میں قتل ہونے والے ڈاکٹر شکیل اوج کے قاتل گرفتار کیے ہوتے تو وحید الرحمان قتل نہ ہوتے۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا اور سادہ نہیں۔ جامعہ کراچی کے اندرونی معاملات میں بھی خاصی گڑ بڑ ہے۔ اور بیرونی عناصر کا جامعہ کے معاملات میں عمل دخل بہت زیادہ ہے اور انہی بیرونی عناصر کو ادارے کی اندرونی سیاست کیلئے استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔
مارچ 2013 سے اپریل 2015 تک کراچی میں چار سینئیر اساتذہ کا قتل یقیناٰ پریشان کن ہے۔ پہلے پروفیسر سبط جعفر، ڈاکٹر جاوید قاضی پھر ڈاکٹر شکیل اوج اور اب ڈاکٹر وحید الرحمان کا قتل کسی منصوبہ کی کڑیاں ہوں یا الگ الگ وارداتیں مگر بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔ اور ڈاکٹرز کے بعد اساتذہ کے بیرون ملک انخلا کا بھی خدشہ بڑھتا جارہا ہے۔