کراچی کے حالات معمول کی جانب گامزن
21 اکتوبر 201016ملین آبادی والا شہر کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی اقتصادی شہ رگ بھی ہے۔ایک طویل عرصے سےکراچی ہدف بنا کے قتل کرنے اور نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کا شکار رہا ہے۔گزشتہ کچھ دنوں سے دوران ان فسادات نے ایک بھر پھر شدت اختیار کرلی ہے اور اتوار سے اب تک شہر میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے مختلف واقعات میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کراچی کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اور حکمران پیپلز پارٹی کے ساتھ صوبائی سطح پر مخلوط حکومت میں شامل عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ دونوں ہی ایک دوسرے کو اس تازہ کشیدگی کے لئے مؤرد الزام ٹھرا رہی ہیں۔
کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھی جانے والی متحدہ قومی موومنٹ نے عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ ساتھ لیاری کی پیپلز امن کمیٹی کو بھی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے ذمہ دار ٹھرایا ہے۔متحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما سید حیدر عباس رضوی نے ڈوئچے ویلے سےخصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، " شہر میں مختلف مافیا موجود ہیں جن میں لینڈ مافیا، ڈرگ مافیا یا لیاری گینگز ، یہ سب کراچی کے موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔کراچی میں لوگوں کے کمرشل انٹرسٹ ہیں۔ ان لوگوں کا جن کا کراچی میں اسٹیک نہیں ہے یا اتنا کم ہے کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ کراچی کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے کچھ بھی کر نے کو تیار ہیں۔"
دوسری طرف ای این پی کا مؤقف ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ڈر سے ان پر ان فسادات کو ہوا دینے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ اس حوالےسے اے این پی سندھ کے صوبائی جنرل سیکرٹری امین خٹک نےڈوئچے ویلے کو بتایا، " چونکہ عوامی نیشنل پارٹی گزشتہ تین چار سالوں سے ایک قوت بن کر ابھری ہے، اس لئے اس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔"
یاد رہے کہ رواں سال اگست میں ایم کیو ایم کے ایک رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر کو بھی ہدف بناکر قتل کردیا گیا تھا اور اتوار 17 اکتوبر کو ان کی خالی نشست پر ضمنی انتخاب کے موقع پر فسادات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا تھا۔ پیر کو شیر شاہ کے علاقے میں واقع کباڑی مارکیٹ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں 12 افراد ہلاک ہوگئے اور شہر ایک بار پھر بند ہوگیا۔
لیاری، اورنگی اور ملیر کے علاقے جرائم پیشہ افراد اور مافیا کے گڑھ مانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں بارہا آپریشن کرانے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ بدھ کے روز مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق ان علاقوں میں کرفیو نافذ کر کے آپریشن کلین اپ کا فیصلہ کیا گای تھا مگر ایسا کچھ عمل میں نہیں آیا جب اس حوالے سے وزیر اعلی سندھ کی خصوصی مشیر شرمیلا فاروقی سے پوچھا گیا تو انہوں نےڈوئچے ویلے کو بتایا : " ابھی تک اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے، تاہم ابھی تک اس پر غور جاری ہے۔"
دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے معاملات طے کر لیں گی اور فوج کو بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اکثر سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کراچی کو اسلحے سے پاک کیا جائے اور جرائم پیشہ افراد جس بھی جماعت، فرقہ اور زبان سے تعلق رکھتے ہوں ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جانا چاہیے۔ مگر یہ کب ہوگا یہ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم۔
ایم کیوایم کے رہنما سید حیدر عباس رضوی، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امین خٹک اور وزیراعلیٰ سندھ کی خصوصی مشیر شرمیلا فارقی کی کراچی کے حالات کے بارے میں ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو سننے کے لئے نیچے دیے گئے لنکس پر کلک کیجیے۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : افسراعوان