کرتار پور راہداری: ’سروس چارج‘ ختم کرنے کی بھارتی اپیل
18 اکتوبر 2019بھارتی سکھ یاتریوں کے پاکستان کے کرتار پور میں واقع گردوارہ دربار صاحب تک جانے کے لیے خصوصی راہداری نومبر میں کھل جانے کا قوی امکان ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان سے ایک بار پھر اپیل کی گئی کہ وہ سکھ یاتریوں سے مجوزہ 'سروس چارج‘ وصول نہ کرے۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے اس حوالے سے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا، ”پاکستان یاتریوں سے فی کس بیس ڈالر (تقریباً پندرہ سو بھارتی روپے) سروس چارج کے طور پر وصول کرنے پر زور دے رہا ہے۔ ہم نے پاکستان سے ایسا نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ جذبات کا معاملہ ہے اور اس کے لیے کوئی چارج نہیں لیا جانا چاہیے۔"
بھارت اس سے پہلے بھی یاتریوں سے کوئی چارج نہ لینے کے سلسلے میں پاکستان سے درخواست کرچکا ہے۔ رویش کمار نے بتایا کہ کرتار پور راہداری کے حوالے سے دیگر معاملات طے ہوچکے ہیں: ''سروس چار ج کو چھوڑ کر راہداری کے حوالے سے بھارت او رپاکستان کے درمیان تمام امور پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاملہ کو حتمی شکل دینے اور شاندار تقریب کے انعقاد کے لیے مفاہمت نامہ پر کسی بھی وقت دستخط کیے جاسکتے ہیں۔"
کرتار پور راہداری کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ معاہدے کے مطابق بھارت سے روزانہ پانچ ہزار یاتری پاکستان جاسکیں گے البتہ بعد میں یہ تعداد دس ہزار روزانہ تک کی جاسکتی ہے۔ معاہدہ کے مطابق بھارت کو کم از کم دس دن قبل یاتریوں کی فہرست پاکستان کو سونپنا ہوگی اور وہ اس پر چار دن میں جواب دے گا۔ پاکستان نے کرتارپور گردوارہ میں بھارت کے ایک قونصلر افسر کو تعینات کرنے کے نئی دہلی کے مطالبہ کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ یہ افسر سکھ یاتریوں کو کسی بھی طرح کے درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گا۔
بھارت کی طرف سے بھی راہداری کا 90 فیصد کام مکمل
بھارتی حکام کے مطابق بھارتی پنجاب کے حصے میں کوریڈور کا 90 فیصد کام ہوچکا ہے اور اس ماہ کے اواخر تک اسے پوری طرح مکمل کرلیا جائے گا۔ بھارتی حصے میں کرتارپور کوریڈور کا افتتاح آٹھ نومبرکو وزیر اعظم نریندر مودی کریں گے۔ ڈھائی ہزار بھارتی سکھوں پر مشتمل یاتریوں کا پہلا گروپ سات نومبر کو بس کے ذریعہ کرتارپور روانہ ہوگا۔ یہ یاتری نو نومبر کو کرتارپور میں افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے اور 12نومبر کو واپس بھارت لوٹ آئیں گے۔ بھارتی حکام کے مطابق پاکستان میں ہونے والی افتتاحی تقریب میں بھارت کا کوئی وزیر یا افسر شرکت نہیں کرے گا۔ گزشتہ دنوں پاکستان نے سابق بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو افتتاحی تقریب کے لیے مدعو کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس پر یہاں سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔ بعد میں پنجاب کے کانگریسی وزیر اعلٰی کیپٹن امریندر سنگھ نے کہا تھا کہ اگر سردار من موہن سنگھ کرتارپور جائیں گے تو صرف ایک یاتری کے طور پر، نہ کہ بھارت کے سابق وزیر اعظم یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے۔ خیال رہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں کرتار پور راہداری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں بھارتی وفاقی وزیر ہرسیمرت کور بادل اور پنجاب کے صوبائی وزیر اور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو بھی شریک ہوئے تھے۔
کرتار پور جانے والے یاتریوں کے لیے سخت سکیورٹی اقدامات
بھارتی حکام نے کرتارپور جانے والے یاتریوں کے لیے سیکورٹی کے مدنظر کئی سخت فیصلے کیے ہیں۔ حکام کے مطابق سکھ یاتری اپنے ساتھ صرف کرپان لے جاسکتے ہیں، کیوں کہ یہ ان کی مذہبی علامت کا حصہ ہے۔ انہیں موبائل فون لے جانے کی سخت ممانعت ہوگی۔ یاتریوں کو ایک خصوصی سکیورٹی گیٹ سے گزرنا ہوگا جس کا نظم و نسق نیم فوجی دستے بارڈر سکیورٹی فورس کے ہاتھوں میں ہوگا۔
دراصل بھارت نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سکھ یاتریوں کے کرتارپور یاترا کے دوران پاکستان میں مبینہ طور پر موجود خالصتان نواز عناصر انہیں متاثر کرنے اور انہیں خالصتانی پروپیگنڈا مواد دینے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ بھارت نے جولائی میں پاکستان کو ایک ڈوزیئر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پچھلے چار برسوں کے دوران ایسے تیس واقعات ہوچکے ہیں جب پاکستان جانے والے بھارتی سکھوں کو خالصتان نواز عناصر نے اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش کی۔ اسی لئے کرتارپور سے واپسی پر یاتریوں کی سخت چیکنگ کی جائے گی۔
خیال رہے کہ کرتار پور میں واقع گردوارہ دربار صاحب سکھوں کے لیے انتہائی عقیدت و احترام کی جگہ ہے۔ سکھوں کے گرو بابا نانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ برس اسی مقام پر گزارے تھے۔ یہ جگہ پاکستان کے ناروال ضلع میں واقع ہے اور بھارتی پنجاب کے ضلع گرداس پور میں واقع گردوارہ بابا نانک سے تقریباً تین کلومیٹر دور ہے۔ بھارت اور پاکستان نے گرونانک دیو جی کے 550ویں جنم دن کے موقع پر بھارتی سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری بنانے اور اسے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔