1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمير ميں پوليس مقابلوں ميں شہريوں کی ہلاکت، معاملہ کچھ اور

5 فروری 2022

پاکستان ميں ہر سال پانچ فروری کو کشمير کے ساتھ يکجہتی کا دن منايا جاتا ہے۔ بھارت کے زير انتظام کشمير ميں مسلح عليحدگی پسند تحريک جاری ہے مگر بھارتی فوج پر بھی انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں کے الزمات ہيں۔

https://p.dw.com/p/46Zmi
Indien das Press Klub in Srinagar wurde geschlossen
تصویر: Tauseef Mustafa/AFP

سن 2020ء ميں موسم گرما کی ايک صبح ابرار چوہان معمول کے وقت سے ذرا پہلے اٹھ گيا۔ بھارت کے زير انتظام کشمير کا رہائشی چوہان چاہتا تھا کہ روانگی سے قبل ذرا دير اپنے چھوٹے بيٹے کے ساتھ کھيل لے۔ وہ اپنے بہنوئی کے ساتھ سيب کے کھيتوں ميں کام کرنے کے ليے نکلا اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہ آيا۔ ابرار کی بيوی شيريں اختر بتاتی ہيں، ''ميں نے ان سے کہا کہ وہ ہميں تنہا چھوڑ کر نہ جائيں مگر وہ گھر ميں کچھ تعمير کا کام کرانے اور ہمارے بيٹے کو کسی اچھے اسکول ميں داخلہ دلانے کے ليے کچھ رقم جمع کرنا چاہتے تھے۔‘‘

کيا کشمير ميں نئے قوانين کا مقصد ہندو آبادکاری بڑھانا ہے؟

بھارتی فوج نے کشمير ميں ’فيک انکاؤنٹر‘ کا اعتراف کر ليا

کشميری عليحدگی پسندوں کا نيا ہتھیار، ’چپکُو بم‘ بھارتی فورسز کے ليے نیا درد سر

ابرار چوہان ان تين افراد ميں سے ايک تھا، جنہيں بھارتی فوج نے سن 2020 ميں 17 جولائی کے روز شوپياں ميں سيب کے باغات ميں قائم ايک پہاڑی پر واقع ايک مکان ميں ہلاک کر ديا تھا۔ واقعے کے بعد بھارتی فوج نے بيان جاری کيا کہ اس نے 'پاکستانی جنگجوؤں‘ کو ہلاک کر ديا ہے، جو ان پر فائرنگ کر رہے تھے اور جن سے اسلحہ برآمد ہوا۔ نعشوں کی تصاوير سے ان کی شناخت ہوئی، تو وہ 25 سالہ ابرار چوہان، اس کا 16 سالہ بہنوئی ابرار خان اور 21 سالہ امتياز حسين نکلے۔

اس واردات کے بعد خطے ميں کافی احتجاج ديکھا گيا۔ تفتيش شروع کی گئی تاکہ اس بات کی جڑ تک پہنچا جا سکے کہ ان تينوں کو، جن کا پاکستان سے کوئی تعلق نہ تھا، بھارتی فوج نے کيوں قتل کيا۔ پھر دسمبر سن 2020 ميں تحقيقات ختم ہوئيں تو پتا چلا کہ ان تينوں کو ايک اسکيم سے فائدہ حاصل کرنے کے ليے قتل کيا گيا تھا، جس ميں جنگجوؤں کو ہدف بنانے پر بھارتی فوج کے افسران کو نوازا جاتا تھا۔ چند کيسز ميں شہريوں کو جنگجو بتا کر انہيں قتل کر ديا جاتا تھا، صرف انعام کی رقم وصول کرنے کی خاطر۔

اس مخصوص واقعے ميں دو سويلين مخبروں اور ايک فوجی افسر پر الزام ہے کہ انہوں نے قريب 27 ہزار ڈالر کا انعام وصول کرنے کی خاطر يہ جعلی ڈھونگ رچايا۔ پوليس کے مطابق فوج کے کپتان بھپندرا سنگھ نے اپنے اعلٰی افسران تک بھی اس واقعے کی جعلی معلومات پہنچائيں۔

شيريں اختر اور ابرار چوہان
شيريں اختر اور ابرار چوہانتصویر: privat

 

بھارت کے زير انتظام کشمير ميں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فوجيوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی تفتيش يا قانونی کارروائی کے ليے 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ کے تحت نئی دہلی حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ فوج کا موقف ہے کہ کارروائی کے خوف کے بغير جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے ليے يہ ايکٹ لازمی ہے۔ ناقدين کی رائے ميں يہ نا مناسب يا ناکافی وجوہات کی بنا پر فوج کو قتل کرنے، گرفتار کرنے اور بلا وارنٹ تلاشی لينے کے اختيارات ديتا ہے۔ شوپياں والے واقعے ميں بھی فوج نے اسی قانون کا سہارا ليا۔

شيريں اختر نے ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''شروع ميں ہميں انصاف کی اميد تھی۔ مگر جب يہ کيس فوجی عدالت منتقل کيا گيا، تو ہميں يہ احساس ہوا کہ يہ کيس اس لمبی فہرست کی نظر ہو جائے گا، جو کشمير ميں بھارتی فوج کے جعلی مقابلوں کی ہے۔ اور انصاف نہيں مل پائے گا۔‘‘

انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکن ورندا گروور نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ فوج کو بے انتہا اختيارات ديتا ہے۔ ''بھارتی فوجی جعلی مقابلوں ميں جنسی زيادتيوں، تشدد اور قتل کی مرتکب ہوئے ہيں اور وہ بھی اپنے خلاف کارروائی کے خوف کے بغير۔‘‘

اسی طرح کشمير کے ايک اور رہائشی 45 سالہ عبدالرشید خان کا کہنا ہے کہ قريب 22 سال قبل چار ديگر شہريوں کے ہمراہ ان کے والد کو بھارتی فوج کے اہلکاروں نے قتل کر ديا تھا۔ يہ واقعہ جنوبی کشمير ميں پيش آيا تھا اور اس کے بعد پھوٹنے والے مظاہروں ميں بھی آٹھ افراد مارے گئے تھے۔ سن 2007ء ميں پانچ فوجی افسران پر مظاہرين کو قتل کرنے کے ليے فرد جرم عائد کی گئی مگر  'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ کے تحت فوج نے معاملہ فوجی عدالت منتقل کرا ليا اور پھر تمام الزامات خارج کر ديے گئے۔

ريٹائرڈ فوجی جنرل عطا حسنين نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ يہ قانون خطرناک ماحول ميں فوجيوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ان کے بقول کشمير ميں جيسے حالات ہيں، وہاں فوجيوں سے غلطياں ہو سکتی ہيں۔ بھارتی فوج ميں سری نگر کور کے کمانڈر ليفٹيننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے حال ہی ميں کہا تھا کہ جب تک فوج انسداد دہشت گردی سے متعلق آپريشنز ميں مصروف ہے، 'آرمڈ فورسز اسپيشل پاورز ايکٹ‘ لازمی ہے۔ ان کے بقول جب سلامتی کی صورت حال بہتر ہو گی تو حکومت اس پر دوبارہ نظر ڈال سکتی ہے کہ آيا اس قانون کی ضرورت ہے يا نہيں۔

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

ع س / ا ب ا (سامان لطیف)