’کشمیر جمہوریت کا امتحان، بھارت اس میں ناکام‘
23 جولائی 2020تنظیم نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کیے جانے کے بعد گزشتہ برس اگست سے رواں سال جولائی کے دوران کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک برس سے جاری لاک ڈاون کی وجہ سے کشمیری عوام کی صحت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی صریحا خلاف ورزی کی گئی۔
'جموں و کشمیر: انسانی حقوق پر لاک ڈاون کے اثرات۔ اگست 2019 تا جولائی 2020‘ کے عنوان سے اس رپورٹ میں بھارت کی مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر کی انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد سے اٹھائے گئے اقدامات کی سخت نکتہ چینی کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سابقہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کردینے کے فیصلے نے عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو بری طرح مایوس کردیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”کشمیر کئی لحاظ سے بھارتی جمہوریت کے لیے ایک امتحان رہا ہے لیکن ہم اس امتحان میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔"
یہ رپورٹ حکومتی اعداد و شمار، میڈیا، حق اطلاعات قانون کے تحت حاصل شدہ معلومات، صنعتی انجمنوں وغیرہ کی رپورٹوں پر مشتمل ہے۔ یہ رپورٹ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن لوکور، ریٹائرڈ میجر جنرل اشوک کمار مہتا، سابق جج اجیت پرکاش شاہ، سابق جسٹس حسنین مسعودی، سابق ایر وائس مارشل کپل کاک، مورخ رام چندر گوہا، سابق خارجہ سکریٹری نروپما راو، سابق لفٹننٹ جنرل ایچ ایس پناگ اور دانشور رادھا کمار سمیت 21 رکنی ٹیم پر مشتمل کمیٹی نے تیار کی ہے۔ اس میں پانچ اگست کو دفعہ 370 کو ختم کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے کے بعدسے عوام کی سیکورٹی، بچوں اور نوجوانوں، انڈسٹری اور روزگار، صحت او رمیڈیا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے انسانوں کی سیکورٹی پر عسکریت پسندی مخالف سرگرمیوں کو ترجیح دینے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ لوگوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا، غیر قانونی گرفتاریاں ہوئیں اور مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) نیز غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے) جیسے سیاہ قوانین کا استعمال کیا گیا۔
”اس کے علاوہ پچھلے گیارہ مہینوں کے لاک ڈاون کے دوران عوامی صحت پر کافی برااثر پڑا ہے۔ لوگوں کے صحت اور طبی خدمات کے حصول کے حقوق کی صریح خلاف ورزی کی گئی۔ خوف اور صدمہ سے پاک ماحول کے بچوں کے حقوق کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔"
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ لا ک ڈاون کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان تعلیم کا ہواہے 2019 اور 2020 کے درمیان اسکول اور کالج بمشکل 100دن کھلے ہوں گے۔ جبکہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب لاک ڈاون کے بعد انٹرنیٹ کی اسپیڈ 2جی کردینے کی وجہ سے آن لائن کلاسز کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اور انٹرنیٹ پر منحصر کرنے والی تجارت تقریباً ختم ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق نئے ڈومیسائل قانون کی وجہ سے پہلے سے ہی ملازمت کی کمی سے دوچار جموں و کشمیر میں مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع مزید کم ہوگئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان کے خلاف یواے پی اے جیسے سیاہ قوانین کے تحت الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ”نئی میڈیا پالیسی نے تو آزاد میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی کا گلاگھونٹ کر رکھ دیا ہے۔"
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کو ختم کرنے سے بھارت کو سیاسی اور سفارتی لحاظ سے بھی فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔”اس کی وجہ سے یہ بات اجاگر ہوگئی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان نہیں ہے بلکہ چین بھی اس میں شامل ہے اور اس فیصلے نے بھارت کے خلاف پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹیجک گٹھ جوڑ کو ایک نیا ہتھیار فراہم کردیا ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ''دفعہ 370کو ختم کرنے کے بھارت کے اقدام کے بعد پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی برداری کے سامنے زیادہ شدت سے اٹھانے کے لیے بیرون ملک اپنے سفارت خانوں میں 'کشمیر سیل‘ قائم کردیے اور سوشل میڈیا پر زہریلی مہم شروع کر رکھی ہے۔ دوسری طرف چین بھی اس معاملے پراقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رائے ہموار کرنے کی کوشش میں مصروف ہے اوراس کی فوج نے مشرقی لداخ میں خیمے نصب کرلیے ہیں۔ سفارتی اور سیکورٹی کے لحاظ سے یہ صورت حال بھارت کے لیے انتہا ئی پریشان کن ہے۔"