کشمیر: اب عام شہری نشانے پر، مگر کس کے؟
6 اکتوبر 2021بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پانچ اکتوبر منگل کے روز ایک کشمیری پنڈت سمیت تین عام شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ سب سے پہلے پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والے ایک معروف تاجر کو گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد سری نگر میں ہی بہار سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کیا گيا، جو کھانے کا ایک اسٹال لگاتا تھا۔ اسی روز شام کے وقت ہی تیسرے شخص کو بانڈی پورہ میں قتل کیا گيا، جو ایک ٹیکسی اسٹینڈ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔
گزشتہ ہفتے بھی اسی طرز پر دو افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گيا تھا۔کشمیری پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیت ماکھن لال بندرو کی کیمسٹ کی دو بڑی دکانیں ہیں۔ یہ دکانیں ان کے والد نے سن 1947میں قائم کی تھیں اور بندرو خاندان نوے کی دہائی میں اس وقت بھی کشمیر چھوڑ کر نہیں گيا، جب کشمیری پنڈت تشدد کے سبب کشمیر سے فرار ہو رہے تھے۔
کشمیر میں تشدد ایک انڈسٹری ہے
حکام نے ان پرتشدد واقعات کا الزام عسکریت پسندوں پر عائد کیا ہے۔ تاہم کشمیری مبصرین کہتے ہیں کہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان واقعات کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ سرینگر کے سینیئر صحافی ہارون ریشی نے ڈی ڈبلیو ارود سے بات چیت میں کہا، ’’کشمیر تنازعے میں اب بہت سی ایجنسیاں شامل ہیں اور ایجنسیوں کی جنگ جاری ہے۔ یہاں تشدد ایک انڈسٹری بن چکا ہے۔ اس لیے وثوق سے یہ کہنا کہ اس کے پیچھے کون ہے، تقریبا نا ممکن ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز کی ہلاکتوں میں ایک کشمیری پنڈت ہے، ایک مسلمان ہے اور ایک باہر کا شخص ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ہلاکتوں سے فائدہ کسے پہنچ رہا ہے، یا پھر ان ہلاکتوں کا حوالہ دے کر آگے فائدہ کون اٹھا سکتا ہے،’’متنازعہ خطوں میں انسانی خون اور ان کی جانوں کی قیمت بہت سستی ہوتی ہے اور اپنے فائدے کے لیے کوئی بھی فریق انہیں آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔‘‘
ہارون ریشی کے مطابق سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ چونکہ تشدد کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اس لیے لوگ آج کیا ہوا کل بڑی آسانی سے بھول بھی جاتے ہیں،’’گزشتہ ہفتے کو بھی اسی طرح کی وارداتیں ہوئی تھیں تاہم اب کوئی ان پر بات تک نہیں کرتا ہے اور کل کو پھر کچھ ہو جائے کا پھر سب اسے بھی بھول جائیں گے۔ یہاں معاملات ایسے ہی چلتے رہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں جو بھی گروپ متحرک ہیں ان سبھی کا اپنا ایک اسٹیک ہے اور انہیں کسی کی جان چلی جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے معروف صحافی شجاعت بخاری کے قتل کے کیس کو حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ ہوتا بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا دعوی ہے کہ ہمارا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے، سب کچھ معلوم ہونے کا دعوی بھی ہے تاہم اس قتل کو کتنے برس بیت چکے ہیں،’’ابھی تک فرد جرم بھی عائد نہیں کی گئی ۔ آخر اب تو بتا دو کہ ہوا کیا تھا کس نے مارا تھا شجاعت بخاری کو؟‘‘
اظہار افسوس
ریاست کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ان ہلاکتوں پر گہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں اس کی مذمت کی اور کہا،’’سرینگر میں ہدف بنا کر قتل کی ایک اور واردات۔ ایک غریب شخص جو ٹھیلے پر گول گپّے فروخت کرتا تھا اسے گولی مار دی گئی۔‘‘ سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے بھی پنڈت برادری سے تعلق رکھنے والے بندرو کی موت پر گہرے افسرس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا،’’میں اس بزدلانہ فعل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ سوگوار خاندان سے میری گہری تعزیت۔ اس گھناؤنے فعل کے مرتکب افراد کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘‘ پولیس نے اس حوالے سے اپنی ٹویٹ میں کہا،’’شدت پسندوں کو پکڑنے کے لیے علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا ہے اور تلاشی مہم جاری ہے۔‘‘