1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کشمیر میں تشدد: پہنچے ہیں پھر وہیں کہ چلے تھے جہاں سے ہم

20 اکتوبر 2021

میرے والدین بتاتے ہیں کہ میرے پیدا ہونے سے قبل نوے کی دہائی کے آغاز میں ٹارگٹ کلنگ نے ہر طرف خوف و ہراس پھیلایا ہوا تھا۔ زیادہ تر سیاسی لیڈر قید خانوں میں تھے اور جو باقی تھے، وہ لندن، جموں یا پھر دہلی کوچ کر گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/41ufM
 DW Urdu Bloggerin Farhana Latief
تصویر: privat

جب میں نے ہوش سنبھالا کشمیر شورش زدہ تو تھا مگر طوائف الملوکی کسی حد تک قابو میں تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ سیاسی لیڈروں نے، چاہے وہ آزادی پسند دھڑے سے تھے یا پرو انڈیا دھڑے سے، بہت حد تک حالات کی کمان سنبھال لی تھی۔

اگست دو ہزار انیس کو، جب بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کر کے اس کو بھارتی یونین میں نہ   صرف ضم کیا بلکہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، بتایا گیا کہ یہ اقدام ترقیاتی کاموں میں تیزی لانے، نظم و نسق کو بہتر بنانے اور خاص طور پر شورش کو پوری طرح کچل دینے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ لیکن اب دو سال بعد ہی یہ سبھی وعدے ہوا میں تحلیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔

گزشتہ کئی ہفتوں سے کشمیر میں خونریزی کا بازار ایک مرتبہ پھر گرم ہو چکا ہے۔ ریاستی حکومت انتہائی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کڑی نگرانی کے باوجود مقامی اور غیر مقامی سویلین افراد کو بچا نہیں سکی۔ جموں و کشمیر کی خود مختاری کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے بعد بیرون ریاست مقیم کشمیری ہندوؤں المعروف پنڈتوں کو، جنہوں نے نوے کی دہائی میں نقل مکانی کی تھی، واپس آنے نیز دیگر غیر ریاستی باشندوں کو بھی کشمیر آنے اور بسنے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔

جن کشمیر پنڈتوں نے اپنی جائیدادیں قانونی طریقوں سے بیچ ڈالی تھیں، ان کو اکسایا جا رہا تھا کہ وہ اپنی جائیدادیں واپس حاصل کریں۔ اس کے بعد کئی گھروں سے ان میں رہنے والے مسلمان خاندانوں کو بے دخلی کے نوٹس دیے جانے کی خبریں متواتر موصول ہوتی رہیں۔ حالانکہ یہ جائیدادیں انہوں نے قانونی طور پر خریدی ہوئی ہیں۔

کشمیر میں، جہاں کووڈ انیس کے نام پر تمام بڑی مساجد اور  درگاہوں میں اجتماعات یا محرم کے جلوسوں کی ممانعت کی گئی تھی، وہیں سری نگر کے شہر کے مرکز میں پندرہ اگست کی یوم آزادی کی تقریب، جنم اشٹمی، مہاتما گاندھی کے جنم دن و دیگر ایسی تقریبات کو اس سے مستثنیٰ رکھ کر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ اس دوہرے رویے پر بھی مقامی آبادی سوالات اٹھاتی رہی ہے۔

نظم و نسق کے دعوے تو ہوا میں اڑ ہی گئے ہیں مگر کشمیر واپس اُسی نوےکی دہائی میں پہنچتا نظر آ رہا ہے۔ اب ان ہلاکتوں کے جواب میں ریاست اپنی انتظامی اور پولیس مشینری کو کتنا ہی متحرک کیوں نہ کرے، حقیقت یہ ہے کہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور جو نقصان ہوا ہے، وہ ناقابل تلافی ہے۔ حکومت اسے ایک سلامتی کے مسئلے کے طور سے پیش کر رہی ہے اور اس کے سیاسی پس منظر سے نظریں چرا رہی ہے۔ مسلسل قتل و غارت گری حکومت کی جانب سے عوامی مطالبات پر توجہ نہ دینے اور اس سے نمٹنے میں ناکامی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

کشمیری پنڈتوں اور ایک سکھ کے قتل کی کشمیر میں ہر طرف سے مذمت کی گئی ہے اور وادی بھر میں افراتفری اور عدم تحفظ کا خوف دیکھا جا سکتا ہے۔ لوگ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کہ اگر حکومت سیاسی صورتحال کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے تو کشمیر میں حالات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ مسلسل تلاشیوں، اندھا دھند گرفتاریوں، محاصروں اور فوجی آپریشنوں نے زندگی مزید اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔

اگرچہ تمام تر توجہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی طرف مبذول ہو گئی ہے مگر اس دوران اننت ناگ میں  سات اکتوبر کو مبینہ طور پر ریاستی آرمڈ فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے پرویز احمد خان کے اہل خانہ اب بھی ان کے قتل کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد پرویز احمد خان کی لاش کو آدھی رات کو دفن کر دیا گیا تاکہ کسی بھی قسم کے رد عمل سے بچا جا سکے۔

سوال یہ ہے کہ کیا نظم و نسق عوام کی شمولیت کے بغیر قائم کیا جا سکتا ہے؟ کیا سیاسی لیڈران کو جیلوں میں بند کر کے یا ان تک عوام کی رسائی محدود بنا کر تعمیر و ترقی کا کوئی خواب پورا ہو سکتا ہے؟ لیکن ہاں! ایسے اقدامات سے آپ ایک قبرستان جیسی خامشی پیدا کر سکتے ہیں لیکن یہ دیرپا نہیں ہوتی ہے۔ اس کے خلاف رد عمل آنا لازمی ہے۔

جب میں نے ان ہلاکتوں کی خبر سنی اور معصوم افراد کو قربانی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھا تو مجھ پر ایک سکتہ سا طاری ہو گیا۔ کیا ہماری جنریشن کو بھی اب دوبارہ وہی دیکھنا ہے، جو ہمارے والدین دیکھ چکے ہیں؟ کیا ہم ایک بہتر مستقبل کے لائق نہیں ہیں؟ یہ سوالات ہنوز جوابات کے منتظر ہیں۔ فی الحال مجھے سید اعجاز احمد کی غزل کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے، ''پہنچے ہیں پھر وہیں کہ چلے تھے جہاں سے ہم‘‘۔