کشمیر میں ماورائے عدالت گرفتاریاں: ایمنسٹی کی بھارت پر تنقید
21 مارچ 2011ایمنسٹی کے ایشیا بحرالکاہل کے خطے کے لیے ڈائریکٹر سیم ظریفی نے پیر کے روز نئی دہلی میں کہا کہ بھارت میں پبلک سیفٹی ایکٹ PSA کے تحت پولیس کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی بھی شخص کو ریاست کے لیے خطرہ قرار دے کر بغیر کوئی مقدمہ چلائے دو سال تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔
سیم ظریفی کے بقول بھارت کے زیر انتظام بد امنی کی شکار ریاست جموں کشمیر میں حکام ایسے تمام افراد کو قید میں رکھنے کے لیے یہ قانون استعمال کر رہے ہیں، جو ان کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ہوتے ہیں اور جنہیں راستے سے ہٹانے یا کسی مروجہ قانون کے مطابق سزا دلوانے کا کوئی دوسرا راستہ یا امکان نہیں ہوتا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سن 1989 سے یہ قانون 20 ہزار سے زائد افراد کو طویل عرصے کے لیے حراست میں رکھنے کے لیے استعمال ہو چکا ہے۔ منقسم ریاست جموں کشمیر کے بھارت کے زیر انتظام علاقے میں نئی دہلی کی حکمرانی کے خلاف مسلم آبادی کی طرف سے مزاحمت اور انتہا پسندی کی ایک بڑی لہر 1989ء میں شروع ہوئی تھی۔
ایمنسٹی کے مطابق اسی کے عشرے کے آخر سے لے کر اب تک بھارتی حکام نے ہر سال سینکڑوں کشمیریوں کو گرفتار کر کے اس طرح مختلف جیلوں میں قید رکھا کہ ان افراد پر نہ تو کوئی فرد جرم عائد کی گئی اور نہ ہی انہیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔
بھارت میں نافذ العمل پبلک سیفٹی ایکٹ نامی اسی قانون کے حوالے سے اس سال جنوری میں انسانی حقوق کے احترام سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی اہلکار مارگریٹ سیکاگیا نے بھی یہ کہا تھا کہ یہ قانون غلط ہے، جس کا فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہیے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف دو عشروں سے بھی زائد عرصے سے جاری مسلمان علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے دوران اب تک قریب 47 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ خود کشمیری انتہا پسند تنظیموں اور غیر ملکی مبصرین کی رائے یہ ہے کہ سن 1989 سے اب تک بھارتی کشمیر میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: افسر اعوان