کشمیر میں مزاحمت کی علامت بچی: شیرخوار ہبا کی آنکھ کا آپریشن
13 دسمبر 2018بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سری نگر سے جمعرات تیرہ دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹروں نے 20 ماہ کی اس کشمیری بچی کی آنکھ سے پیلٹ گن سے فائرنگ کے نتیجے میں پھنسا ہوا وہ دھاتی ٹکڑا نکال دیا ہے، جس کے لگنے کے بعد اس بچی کی آنکھ میں آنے والا زخم بحران زدہ کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف عام شہریوں کی طرف سے احتجاج اور مظاہروں کی علامت بن گیا تھا۔
ساتھ ہی اس واقعے کے بعد اس بارے میں ایک بار پھر شدید بحث شروع ہو گئی تھی کہ آیا کشمیر میں بھارتی دستوں کی طرف سے ان پیلٹ گنوں کا استعمال اخلاقی طور پر جائز ہے، جو اب تک سینکڑوں کشمیری نوجوانوں اور نابالغ بچوں کی بینائی کو متاثر کر چکا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ہبا نثار کی آنکھ کا آپریشن تو کر دیا گیا ہے تاہم یہ بات یقین سے کہنا ابھی ممکن نہیں کہ آیا یہ معصوم بچی اپنی اس متاثرہ آنکھ سے دنیا کو دوبارہ دیکھ بھی سکے گی یا نہیں۔
ہبا کے والدین کے مطابق وہ اپنی اس شیر خوار بچی کے ساتھ نومبر کے اواخر میں آنسو گیس کے گہرے دھوئیں سے نکلنے کی کوشش میں تھے کہ پمپ ایکشن گنوں سے فائر کیے جانے والے پیلٹس کی زد میں آ گئے تھے۔ گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب کشمیر کے بہت زیادہ کشیدگی کے شکار ایک علاقے میں مقامی مظاہرین اور بھارتی دستوں کے مابین جھڑپیں جاری تھیں۔ تب ان جھڑپوں میں بھارتی دستوں کی طرف سے آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے جا رہے تھے اور پیلٹ گنوں سے فائرنگ بھی کی جا رہی تھی۔
سری نگر کے مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال کے ایک سرجن نے، جو ہبا کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں کی ٹیم میں شامل تھے، جمعرات کے روز بتایا، ’’ہم نے ہبا کی آنکھ سے پیلٹ (دھاتی چھرہ) تو نکال دیا ہے لیکن اس کی آنکھ انتہائی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘‘ اس ڈاکٹر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’چونکہ ہبا ایک بہت چھوٹی سی بچی ہے، اس لیے ہم فوری طور پر ایسا کوئی ٹیسٹ بھی نہیں کر سکیں گے، جس کی مدد سے یہ طے کیا جا سکے کہ اس کی بینائی کس حد تک باقی ہے یا کس حد تک ضائع ہو چکی ہے۔‘‘
ہبا کے والد نثار احمد کے مطابق یہ آپریشن ہبا کی متاثرہ آنکھ کا دوسرا آپریشن تھا اور وہ اس آپریشن کے بعد ہسپتال میں اپنے بستر میں مقابلتاﹰ پرسکون تھی۔
بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں مقامی آبادی کے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے پیلٹ گنوں کا استعمال 2010ء میں شروع کیا تھا۔ سرکاری طور پر ان شاٹ گنوں کو ’’غیر مہلک‘‘ ہتھیار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن خود بھارتی حکومت کے 2017ء کے ڈیٹا کے مطابق ان پیلٹ گنوں سے اب تک کم از کم 13 کشمیری مظاہرین ہلاک اور چھ ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب 800 زخمی ایسے کشمیری باشندے تھے، جنہیں ان پیلٹ گنوں کی وجہ سے آنکھوں میں زخم آئے تھے اور جن کی بینائی مکمل یا جزوی طور پر ضائع ہو چکی ہے۔
م م / ش ح / اے ایف پی