کشمیر میں پیپر ماشی کے فن کو زوال کا سامنا
22 اگست 2021پیپر ماشی کو چودہویں صدی میں ایک معتبر کاروبار کی حیثیت حاصل تھی اور اس کے نمونے مختلف معاشروں میں پسند کیے جاتے تھے۔ اس فن کو جمالیاتی فن کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ نئی دہلی حکومت کے سخت انتظامی اقدامات اور علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن نے کشمیر کے تاجروں، سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد اور فنکاروں کی صلاحیتوں کو کلی طور پر محدود کر دیا ہے۔ ایسے ہنرمندوں میں پیپر ماشی کے فن سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
جموں و کشمیر پر مرکز حملہ آور ہے، راہول گاندھی
پیپر ماشی
کشمیر کی دستکاریوں میں کئی فنون شامل ہیں لیکن قالین بافی، پیپر ماشی اور لکڑی پر دلفریب نمونے بنانے کو خاندانی کاروبار اور فنون میں شمار کیا جاتا ہے۔ نسل در نسل ان فنون کی منتقلی ہوتی رہی ہے۔
پیپر ماشی کو شوخ رنگوں کی وجہ سے بہت دلکش دستکاری کے نمونے قرار دیے جاتے ہیں۔ پیپر ماشی سے وابستہ خاندان کسی دور میں انتہائی آسودہ حال ہوا کرتے تھے لیکن اب غربت نے ان کے گھروں کی راہ دیکھ لی ہے۔
اس فن میں کاغذ کے دستوں کو گیلا کر کے کوٹ کوٹ کر یک جان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس گیلے کاغذی مواد کو مختلف صورتوں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان نمونوں کو شوخ رنگوں سے سنوارا جاتا ہے۔
مشہور صوفی بزرگ سید علی ہمدانی چودہویں صدی میں پیپر ماشی کا فن ایران سے کشمیر لائے تھے۔ ان کے ساتھ ایرانی دستکار بھی تھے اور انہوں نے مقامی کشمیری افراد کو پیپر ماشی سکھا کر اس فن کے ترویج کی۔
کشمیر: او آئی سی کے بیان پر بھارت کی ناراضگی
پیپر ماشی کے دست کار پریشان
اختر حسین میر کا خاندان ایک صدی سے زائد عرصے سے پیپر ماشی کے کاروبار میں منسلک ہے۔ حالیہ انتہائی سخت انتظامی اقدامات کی وجہ سے اب یہ کاروبار میر صاحب کے سامنے دم توڑتا جا رہا ہے۔
اختر حسین میر نے دس برس کی عمر میں پیپر ماشی کا فن سیکھنا شروع کیا تھا۔ انہیں ان کے والد نے اس فن سے روشناس کرایا تھا۔ پانچ دہائیاں اس فن کے ساتھ وابستہ رہنے والے اکبر میر کے مالی حالات بہت کمزور ہر چکے ہیں کیونکہ سیاحتی صنعت کو شدید گراوٹ کا سامنا ہے۔ اس فن سے وابستہ کئی اور دستکاروں کے حالات بھی اختر حسین میر کی طرح ہو کر رہ گئے ہیں۔
اختر میر اینڈ برادز
سرینگر شہر کے قدیمی اور گنجان آبار عالمگیری بازار میں اختر حسین اینڈ برادز کے نام سے واقع دوکان کی رونق اجڑ چکی ہے۔ اس دوکان پر کام کرنے والے دستکاروں کو اب شدید مشکلات درپیش ہیں۔
کشمیریوں کا یوم سیاہ: یورپی پارلیمانی اراکین کا اعلیٰ یورپی حکام کے نام خط
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت کی جانب سے پانچ اگست سن 2019 سے شروع کیے جانے والے سخت لاک ڈاؤن نے سبھی افراد پر عرصہ حیات کو تنگ کر دیا ہے۔ اب صورت حال میں نرمی پیدا کی گئی ہے لیکن کاروبار اور دستکار سنبھل نہیں پا رہے۔
اس کاروبار کے شریک مالک ناصر میر کہتے ہیں کہ پانچ اگست سن 2019 سے قبل ان کی دوکان پر ایک سو افراد کام کرتے تھے اور اب صرف پندرہ رہ گئے ہیں۔ سیاحت میں زوال نے پیپر ماشی کی دستکاری کو قریب قریب ختم کر دیا ہے۔ ناصر میر مزید کہتے ہیں کہ اب صرف مقامی خریدار ہیں، جو شادی بیاہ کے لیے کچھ سامان خرید رہے ہیں اور اسی سے ان کی گزر بسر ہو رہی ہے۔
اربوں ڈالر کا نقصان
کشمیر چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریز کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کے اقدامات سے مقامی کاروباری حلقے کو سات ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ چیمبر نے یہ بھی بتایا کہ مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں، اس لاک ڈاؤن نے سیاحت اور دستکاری کے شعبے کو شدید نقصان سے دوچار کر رکھا ہے۔ ہینڈی کرافٹس کا نگران حکومتی دفتر بھی دستکاروں کی ان مشکلات سے آگاہ ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ تمام مشکلات عارضی ہیں اور جلد صورت حال بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔
رفعت فرید، سرینگر (ع ح/)