کشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمے کے خلاف درخواستوں کی سماعت
2 اگست 2023بھارتی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت ختم کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر بدھ دو اگست کو سماعت شروع کر دی ہے۔ سن دو ہزار انیس میں کی گئی اس قانون سازی کے ذریعے کشمیر کے ریاستی درجے اور الگ آئین کو منسوخ کرتے ہوئے اس خطے کے باشندوں کی جائیداد اور ملازمتوں پر وراثتی حق کو بھی ختم کر دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس سمیت پانچ ججوں پر مشتمل ایک عدالتی بينچ بیک وقت کئی درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے، جن میں وہ درخواستیں بھی شامل ہیں، جن کے ذریعے1947ء میں نو آزاد شدہ بھارت کے ساتھ الحاق کے بعد کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ ایسی درخواستیں 2019 کی تبدیلیوں سے پہلے دائر کی گئی تھیں۔
اس بے مثال اقدام نے کشمیر کے خطے کو دو وفاقی علاقوں لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کر دیا۔ یہ دونوں علاقے اب اپنی کسی پارلیمان کے بغیر براہ راست مرکزی حکومت کی نگرانی میں آ گئے ہیں۔ اس اقدام کے فوری مضمرات یہ تھے کہ یہ مسلم اکثریتی خطہ اب بیوروکریٹس کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور اس نے اپنا جھنڈا، ضابطہ فوجداری اور آئین کھو دیا ہے۔
کشمیر میں مقیم ایک بھارتی قانون ساز حسنین مسعودی کشمیر ہائی کورٹ میں بطور جج بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق متنازعہ فیصلے کو چیلنج کرنے والے پہلے درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں۔ مسعودی کا کہنا ہے۔''مقدمہ ملک کی سب سے اعلیٰ ترین آئینی بينچ کے سامنے ہے۔ ہم پر امید ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اس آئینی فریم ورک نے کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بننے کے لیے ایک طریقہ کار فراہم کیا ہوا تھا۔ اس کی منسوخی ایک غداری اور ہماری شناخت پر حملہ ہے۔‘‘ مسعودی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کا حصہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2019 ء کے فیصلے نے بھارت کے آئین کے تحت 'ہر اصول اور طریقہ کار کی خلاف ورزی کی‘ اور یہ اقدام آئین کی 'اساس کی سنگین خلاف ورزی‘ ہے۔
اس اقدام کے فوراً بعد بھارتی حکام نے کسی عوامی رائے کے بغیر اپنی نافذ کردہ انتظامی تبدیلیوں کے ساتھ کشمیر کو بھارت کے باقی علاقوں میں ضم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ سن 2020 میں نافذ کیے گئے ایک ڈومیسائل قانون نے اس خطے میں کم از کم 15 سال سے مقیم یا سات سال تک زیر تعلیم رہنے والے کسی بھی بھارتی شہری کے لیے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ وہ اس خطے کا مستقل رہائشی بن سکے۔
اسی سال حکومت نے بھارتی فوجیوں کے لیے کشمیر میں زمین حاصل کرنے اور'اسٹریٹيجک‘ بستیوں کی تعمیر کے لیے قوانین میں نرمی بھی کی۔ حکام نے نئے رہائشی حقوق کو خطے میں معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے کشمیر کی آبادی کی شکل بدل سکتی ہے۔
بہت سے کشمیریوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر کبھی بھی رائے شماری ہوتی ہے تو بیرونی لوگوں کی آمد اس کے نتائج کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ان کے اس خدشے کے پیچھے 1948ء میں منطور کی گئی اقوام متحدہ کی وہ قراردادیں ہیں، جن کے تحت کشمیر کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا انتخاب کرنے کے لیے اس خطے میں رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اسی کی دہائی میں کشمیر کے خطے میں اسی رائے شماری کے انعقاد کا مطالبہ لے کر ایک مسلح تحریک بھی شروع ہوئی۔ زیادہ تر مسلمان کشمیری باغیوں کے اس مقصد کی حمایت کرتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے یا ایک آزاد ریاست رہے۔
نئی دہلی کا اصرار ہے کہ پاکستان، کشمیر میں عسکریت پسندی کے ذریعے دہشت گردی میں شامل ہے لیکن اسلام آباد اس الزام کی تردید کرتا ہے۔ اس لڑائی میں دسیوں ہزار شہری، باغی اور حکومتی فورسز ہلاک ہو چکے ہیں۔
بہت سے مسلم نسلی کشمیری سن 2019 کی تبدیلیوں کو خطے کے بھارت کے ساتھ الحاق کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ اقلیتی ہندو اور بدھ برادریوں کے ارکان نے ابتدا میں اس اقدام کا خیرمقدم کیا لیکن بعد میں انہوں نے بھی اپنی زمین اور ملازمتیں کھونے کا خدشہ ظاہر کیا۔
بھارت میں قوم پرست ہندو اور مودی کے حامی کشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمے پر خوش ہیں اور وہ اسے ایک 'نیا کشمیر‘ قرار دیتے ہیں۔ تاہم مودی حکومت نے کشمیریوں کی شہری آزادیوں پر قدغن لگا کو اس خطے کے لوگوں کو بڑی حد تک خاموش کرا رکھا ہےکیونکہ بھارت نے یہاں اختلاف رائے کی کسی بھی شکل کو برداشت نہیں کیا۔
کشمیر میں پریس کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کی پرانی آئینی حثیت کی منسوخی کے بعد سے خطے میں بہت سے صحافیوں کو ہراساں کیا گیا، تھانوں میں طلب کیا گیا اور بعض اوقات گرفتار بھی کیا گیا۔ انتظامیہ نے ایک نئی میڈیا پالیسی بھی نافذ کی ہے جو رپورٹنگ کو کنٹرول کرتی ہے۔
ش ر ⁄ ع س (اے پی)