کشمیر کے معاملے پر اروندھتی رائے کے بیانات موضوع بحث
2 اگست 2016اروندھتی رائے نے 23 اکتوبر 2010ء کو ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’کشمیر کبھی بھی بھارت کا لازمی حصہ نہیں رہا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ یہاں تک کہ بھارتی حکومت بھی اسے تسلیم کر چکی ہے۔‘‘
ٹوئیٹر پر ان دنوں بھارتی مصنفہ اروندھتی رائے کے کشمیر پر دیے جانے والے بیانات ایک بار پھر موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔
بھارتی کشمیر میں صورتحال ایک بار پھر کشیدہ ہے۔ 12 جولائی کو علیحدگی پسند تنظیم حزب المجاہدین کے جنگجو رہنما برہان وانی کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہونے والے مقابلے میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد وہاں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جو متعدد علاقوں میں آج 25 ویں روز بھی جاری ہے۔ اس دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں اور سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں 55 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی کی ایک تصویر کے بھی کافی چرچے ہیں، جس میں وہ ایک دیوار پر بڑے حروف کے ساتھ انگریزی میں تحریر کر رہے ہیں ’گو انڈیا گو بیک‘
بھارت کے ’ذی نیوز‘ نے تحریک حریت کے رہنما سید علی گیلانی کے اس اقدام کو وہاں جاری مظاہروں کے سلسلے کو مزید بھڑکانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
پاکستانی تجزیہ کار پرویز ہود بھائی نے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار ڈان نیوز میں چھپنے والے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ 22 سالہ برہان وانی کی بھارتی کشمیری فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے باعث بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بے چینی اپنے عروج پر ہے۔
ہود بھائی لکھتے ہیں کہ وانی کے جنازے میں شریک کشمیریوں پر جن کی تعداد دو لاکھ سے کم نہیں تھی، بھارتی فورسز کی طرف سے پیلٹ گنوں کے ذریعے سینکڑوں افراد کو چھروں کا نشانہ بنا کر انہیں معزور یا اندھا کر دینا بھی جرم سے کم نہیں ہے۔
ہودبھائی نے پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے معاملے پر جذبات میں آ کر فیصلہ کرنے کی بجائے مشورہ دیا ہے کہ وہ بات چیت کا راستہ اختیار کریں اور یہی کشمیر کے عوام کے حق میں بہتر ہو گا۔
’سعودی گزٹ‘ نامی اخبار کے ایک تجزیے میں تجزیہ کار خالد المانیہ لکھتے ہیں کہ کشمیر ایک بار پھر شہ سرخیوں میں ہے اور وہاں اب تک 50 سے زائد مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پیلٹ گنز کے استعمال سے نوجوانوں کو نابینا بنانے اور ان کی حراست کا سلسلہ جاری ہے مگر بھارتی میڈیا میں اس حوالے سے زیادہ تر خاموشی ہے۔
اس تجزیہ کار نے بھارت میں انسانی حقوق کی علمبردار اروندھتی رائے کی طرف سے کشمیریوں کے حق میں تحریروں کا بھی حوالہ دیا ہے کہ کس طرح وہ بھارتی زیر انتظام کمشیر کے باشندوں کے بارے میں آواز اٹھا رہی ہیں۔