کشمیری رہنما اشرف صحرائی کی موت پرغم وغصہ
6 مئی 2021اشرف صحرائی ایک سال سے جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں قید تھے۔ انہیں پچھلے ہفتے دوران حراست کورونا انفیکشن ہوگیا تھا، جس کے بعد انہیں شہر کے میڈیکل ہسپتال منتقل کیا گیا۔ لیکن بدھ کی صبح وہاں ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور انہیں بچایا نہ جا سکا۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس نے ان کی موت کے لیے انتظامی غفلت اور حکومتی لاپرواہی کو ذمہ دار ٹہرایا ہے۔
ایک بیان میں علحیدگی پسند پارٹیوں کے اتحاد نے کہا کہ بھارتی حکومت سے بارہا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ کورونا کے خطرات کے مدنظر تمام سیاسی قیدیوں کو انسانی بنیادوں پر رہا کرے لیکن حکام ان کی جانوں کو داؤ پر لگانے سے باز نہیں آرہے۔
ادھر پاکستان میں بھی عوامی سطح پر مختلف رہنماؤں نے اشرف صحرائی کی موت پر غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
جمعرات کو ایک بیان میں وزیراعظم عمران نے کہا کہ "بھارت کا کشمیریوں پر ظلم و ستم بین الاقوامی برادری کے اجتماعی ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔ ہم سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں اہلِ کشمیر کی حق خودارادیت کے لیے منصفانہ جدوجہد کی حمایت جاری رکھیں گے۔"
اشرف صحرائی کون تھے؟
محمد اشرف خان صحرائی کا شمار کشمیر کے ان سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے جو خطے کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی رہے ہیں۔ وہ نظریاتی لحاظ سے جماعت اسلامی کے مضبوط رکن تھے اور سید علی شاہ گیلانی کے قریبی ساتھی رہے۔
اشرف صحرائی نے اپنی ساٹھ سالہا جدوجہد آزادی کے دوران سولہ برس بھارت کی جیلوں میں گزارے۔
وہ کشمیر پر بھارتی کنٹرول کے سخت مخالف تھے اور جب انہیں لگا کہ حریت کانفرنس کے اندر بعض رہنما بھارت کی طرف لچک پیدا کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے علی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر اپنی ایک الگ تنظیم ' تحریک حریت کشمیر‘ قائم کر لی۔
کشمیر میں بڑھتی ہوئی گھٹن اور بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے تنگ آکر ان کے ایک بیٹے نے تعلیم چھوڑ کر عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کیا اور حزب المجاہدین سے جا ملے۔ وہ پچھلے سال اپریل میں سرینگر میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے۔ اس واقعے کے کچھ ماہ بعد ہی بھارتی حکام نے اشرف صحرائی کو متنازعیہ قانون 'پبلک سیفٹی ایکٹ' کے تحت جیل میں ڈال دیا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بھارت نے اس قانون کی تحت ہزاروں کشمیریوں کو قید کر رکھا ہے۔ کشمیری تنظیموں کے مطابق کورونا کی وبا کے دوران جیلوں میں ان سیاسی اسیروں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔