کشمیری مہاجرین اپنے رشتہ داروں کے لیے فکرمند
16 اگست 2019پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو تقسیم کرنے والی 'لائن آف کنٹرول‘ سے تقریباﹰ چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر دوپہر کے وقت ہلکی ہلکی بارش کے دوران خدیجہ بی بی ایک پہاڑی سے اترتے ہوئے ہمیں مانک پیاں مہاجر کیمپ میں اپنے کوارٹر کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ضلع مظفرآباد کا یہ مہاجر کیمپ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قائم نو کیمپوں میں سے ایک ہے۔ اس میں چار ہزار تارکین وطن رہائش پذیر ہیں۔
خدیجہ بی بی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سن 90 کی دہائی میں کشمیری آزادی پسند جنگجوؤں کے خلاف بھارتی فورسز کے کریک ڈاؤن کے بعد قریب 40000 تارکین وطن نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا رخ کیا تھا، جن میں خدیجہ بی بی بھی شامل تھیں۔ بی بی کے مطابق وہ 1996ء میں اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی تھیں کیوں کہ بھارتی فوجی دستوں نے ان کے شوہر پر جسمانی تشدد کیا تھا۔
رواں ماہ پانچ اگست کو دہلی حکومت کی جانب سے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کے خاتمے کے لیے قانون سازی کیے جانے کے بعد سے ان کیمپوں میں موجود کشمیری مہاجرین کو اپنے ان رشتہ داروں کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے، جو اب بھی کشمیر کے بھارتی حصے میں مقیم ہیں۔ ان کیمپوں میں مقیم بہت سے کشمیریوں کو 90 کی دہائی کے وہ مشکل لمحات یاد آگئے جب وہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
’اپنے والد کا آخری مرتبہ چہرہ بھی نہ دیکھ پائی‘
بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے فیصلے سے ایک روز قبل چار اگست کے روز خدیجہ بی بی کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ خدیجہ بی بی کے والد کپواڑہ ہی میں مقیم تھے۔ بی بی نے بتایا کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے وہ تعزیت کے لیے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ تک نہ کرسکیں۔
خدیجہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والد کا آخری مرتبہ نہ چہرہ دیکھ سکیں اور نہ ہی ان کی آخری رسومات میں شرکت کر پائیں۔ ان کے بقول، ''ہم شدید غم کی کیفیت میں مبتلا ہیں کیوں کہ رابطے کی سہولت منقطع ہونے کی وجہ سے ہم اپنے بھائی بہنوں سے بات چیت نہیں کرسکتے۔ سخت کرفیو کی صورت حال کے باعث میرے دیگر رشتہ داروں کو والد کے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت بھی نہ مل سکی۔‘‘
’موت ہمارا انتظار کر رہی تھی‘
الف دین خدیجہ بی بی کے شوہر ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارتی فوج نے انہیں سن 1994 میں گرفتار کیا تھا اور بغیر کسی جرم کے انہیں بھلوال جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ الف دین کے مطابق ان کے علاوہ ان کے تین دوست بھی گرفتار کیے گئے تھے جنہیں، ان کے مطابق، رہائی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے الف دین کا کہنا تھا، ''مجھے کپواڑہ ضلع میں بھارتی فوج نے گرفتار کیا، اور 18 ماہ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے میرے جسم کو لوہے کی سرخ گرم سلاخ سے جلا دیا اور عضو تناسل پر بجلی کے کرنٹ سے جھٹکے دیے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری بندوق کہاں ہے اور کیا میں پاکستانی علیحدگی پسندوں کا حامی ہوں۔‘‘
الف دین نے مزید بتایا کہ جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ اور دو بہنوں کے ساتھ 1996ء میں پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے مطابق، ''اگر ہم واپس لوٹ کر گئے تو وہاں صرف موت ہمارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘
منقسم خاندان تشویش میں مبتلا
مہوش لعل دین کے والد کشمیری علیحدگی پسند جنگجو تھے۔ وہ ضلع کپواڑہ میں بھارتی فورسز سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے۔ والد کی موت کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر چلا آیا تھا۔ آج وہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے لیے فکر مند ہیں۔ مہوش لعل دین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں اپنے والد پر فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''میرے والد نے آزادی کے لیے اپنی جان دی۔ میں ان کو بہت یاد کرتی ہوں اور اب خود کو کافی تنہا محسوس کرتی ہوں۔ میں واپس جانا چاہتی ہوں اور اپنے انکل اور دیگر رشتہ داروں سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ مہوش نے مزید بتایا کہ ان کا قریب دو ہفتوں سے اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں ہو سکا اس لیے وہ بہت فکر مند ہے۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن اویس راجپوت نے ڈی ڈبلیو کو کشمیر کے منقسم خاندانوں کے بارے میں بتایا، ''میں گزشتہ کئی برسوں سے ان مہاجرین سے ملاقات کر رہا ہوں جن کے خاندان منقسم ہیں۔ میں ان کے بہتر معیار زندگی کے لیے بھی مدد کر رہا ہوں کیوں کہ وہ اب بھی ماضی میں پیش آنے والے تشدد کے باعث صدمے سے دوچار ہیں۔‘‘
پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں زندگی
اگرچہ ہجرت کے بعد بیشتر تقسیم شدہ خاندان کبھی واپس بھارت کے زیر انتظام کشمیر نہیں گئے لیکن بہت سے افراد کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'بین الاقوامی فورم برائے انصاف اور انسانی حقوق‘ کے وائس چیئرمین مشتاق الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان نے ایسے افراد کو پناہ دی ہے جنہیں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جبر کا سامنا تھا۔
سن 1990 میں ہجرت کے پاکستان چلے آنے والے مشتاق الاسلام کے بقول، ''اس ملک [پاکستان] نے ہمیں سب کچھ دیا ہے: آزادی، تعلیم ، روزگار اور رہنے کے لیے جگہ بھی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس ملک نے ہمیں پر امن زندگی دی ہے۔‘‘
(ہارون جنجوعہ/ ع آ / ش ح)