کلائمیٹ ڈیل، ’دنیا کو محفوظ بنانے کا موقع مل گیا‘
13 دسمبر 2015فرانس میں اقوام متحدہ کی عالمی کلائمیٹ کانفرنس کے دوران گزشتہ روز طے پانے والی ڈیل کو اس کرہ ارض کے تحفظ کے لیے ایک ضمانت قرار دیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ اس ڈیل سے ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے جبکہ چین اور بھارت نے بھی اس معاہدے کو عالمی درجہ حرارت میں کمی اور ضرر رساں سبز مکانی گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کے حوالے سے انتہائی اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔
صدر اوباما کے مطابق پیرس کلائمیٹ ڈیل نے اس دنیا کو محفوظ بنانے کے حوالے سے ایک موقع فراہم کیا ہے اور اب تمام عالمی رہنماؤں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اس ڈیل پر عمل کرتے ہوئے ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کریں۔ یہ سبز مکانی گیسیں ہی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ تصور کی جاتی ہیں۔ پیرس کلائمیٹ سمٹ کا ایک بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ کاربن کے اخراج میں کمی ممکن بنائی جائے اور مختلف ممالک کے لیے اس کی ایک حد مقرر کر دی جائے۔
پیرس میں دو سو سے زائد ممالک کے مندوبین پہلی مرتبہ ایک ایسی ڈیل پر متفق ہوئے ہیں، جس کے تحت سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کو ممکن بنانا ہے۔ اس ڈیل کی کچھ شقوں پر عملدرآمد تمام ممالک پر لازم ہو گا۔ عالمی رہنما پہلی مرتبہ اس امر پر بھی متفق ہوئے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ سے کم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس ڈیل کے مسودے کے مطابق کوشش ہو گی کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کر دیا جائے۔ اس ڈیل پر اطلاق 2020ء سے شروع ہو گا۔
امریکی صدر اوباما نے عالمی رہنماؤں کے مابین ہونے والے اس اتفاق رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سب نے مل کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ہم متحد ہو جائیں تو کیا کچھ ہو سکتا ہے‘۔ تاہم انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ یہ معاہدہ ’کامل‘ نہیں ہے۔ دوسری طرف چین نے بھی کہا ہے کہ یہ ڈیل ’مثالی‘ نہیں ہے لیکن اس نے دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ایک بہتر سمت کا تعین کر دیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پیرس ڈیل نے دنیا کے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کر دی ہے۔ انہوں نے اتوار کے دن اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ’ماحولیاتی تبدیلیاں ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ پیرس معاہدے نے واضح کر دیا ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے دنیا کس قدر پرعزم ہے‘۔ پیرس کانفرنس کے دوران مودی کا موقف تھا کہ غربت کے خاتمے کے لیے بھارت کو سستے کوئلے کا زیادہ استعمال کرنا پڑے گا جبکہ امیر ترین ممالک کو کاربن کے اخراج کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہییں۔ یہ امر اہم ہے کہ بھارت ایسی ضرررساں گیسوں کا اخراج کرنے والا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
پیرس کلائمیٹ ڈیل میں جہاں عالمی رہنماؤں نے عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے علاوہ کاربن کے اخراج کے حوالے سے روک لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے، وہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے لیے ایک مالیاتی فنڈ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ سالانہ سو بلین ڈالر مالیت کے اس فنڈ سے انتہائی متاثرہ ممالک کو بدلتے ہوئے موسموں سے مطابقت پیدا کرنے کی ترغیب دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر یہ رقوم 2020ء تک فراہم کی جائیں گے لیکن اس کے بعد بھی متاثرہ ممالک کی مالی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
پیرس ڈیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر پانچ برس بعد ماحولیاتی تبدیلیوں میں کمی کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی جانچ پڑتال کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ کاربن کے اخراج میں کمی کے حوالے سے کیے گئے وعدے کس حد تک وفا ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ماحول دوست کارکنوں نے کہا ہے کہ پیرس کلائمیٹ ڈیل سے دنیا کے ماحول کا تحفظ یقینی بنانا مشکل ہو گا۔